ہم سری لنکا سے ہزار درجے بہتر ہیں


ایک روز ہم چند دوست کسی ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، دوران محفل گفتگو کا رخ مختلف ملکوں کی ثقافت اور رسم و رواج کی طرف مڑ گیا۔ ایک دوست نے، جو امریکہ سے تازہ تازہ وارد ہوا تھا، امریکیوں کی عادات و خصائل پر روشنی ڈالنی شروع کی اور پھر ڈالتا ہی چلا گیا حتی کہ ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ کہنے لگا کہ امریکہ میں لوگ بار بار چائے یا کھانے کا پوچھ کر مہمان کو زچ نہیں کرتے، وہاں ایک دفعہ پوچھتے ہیں کہ آپ چائے لیں گے یا کافی اور اگر آپ انکار کر دیں تو وہ اوکے کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں، جبکہ اپنے ہاں تو جب تک مہمان کے منہ میں کھانے کے لیے کچھ ٹھونس نہ دیا جائے ہمیں چین نہیں آتا۔ ہمارے دوست نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میں گوجرانوالہ کسی سے ملنے گیا، انہوں نے پوچھا کہ آپ کھانے میں کیا لیں گے، میں نے کہا کہ پلیز آپ تکلف نہ کریں میں کھانا کھا کر آیا ہوں، انہوں نے کہا کہ ہم بالکل تکلف نہیں کریں گے اور پھر میرے نہ نہ کرنے کے باوجود انہوں نے مٹن نلی اور چانپیں منگوا لیں اور فرمایا کہ آپ چونکہ کھانا کھا کر آئے ہیں اس لیے چائے کے ساتھ یہ ’لائٹ سا بار بی بی کیو منگوا لیا ہے‘ ۔ ہمارے امریکی دوست کی بات ختم ہوئی تو بیرا کھانے کا بل لے آیا، ہم میں سے کسی نے بل ادا کر دیا اور اٹھ کھڑے ہوئے، اس پر بھی امریکہ پلٹ دوست بہت جز بز ہوا، کہنے لگا، یار مجھے تم لوگوں کی یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی، آخر ایک بندے پر سارا بوجھ کیوں ڈال دیتے ہو، امریکہ میں تو ہر بندہ اپنا اپنا بل دیتا ہے بلکہ مغربی معاشروں میں تو اکثر بات بیٹی بھی اکٹھے کھانے پر جائیں تو اپنا بل علیحدہ دیتے ہیں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ ہم لوگ غیر ممالک پر کچھ زیادہ ہی فریفتہ ہو جاتے ہیں حالانکہ ان ممالک کا اپنا کلچر اور مسائل ہیں جبکہ ہماری اپنی ثقافت اور عادات ہیں۔ لیکن بات صرف یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا، ہم نے تو ہر ملک کے مقابلے میں خود کو پسماندہ سمجھنا کر دیا ہے۔ سری لنکا کی مثال لے لیں۔ ہم سری لنکا کی شرح خواندگی کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر کہتے تھے کہ یہ وہ ملک ہے جس کی شرح خواندگی ( 1981 میں ) 87 فیصد ہے جبکہ ہماری فقط 17 فیصد۔ جب کوئی شخص سری لنکا جاتا تھا تو کولمبو کے گن گاتا ہوا واپس آتا تھا اور بتاتا تھا کہ ہمیں سری لنکا سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جیسے وہاں کی سیاحتی انڈسٹری زر مبادلہ کماتی ہے اس طرح ہمیں بھی کرنا چاہیے، وہاں کے لوگ بے حد محنتی اور خوش اخلاق ہیں، ہر بندہ مسرور اور شاداں پھرتا ہے حتی کہ کولمبو کے ٹیکسی ڈرائیور کی زندگی بھی ہمارے شاعروں ادیبوں سے بہتر ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سری لنکا کی مثالیں دے کر ڈرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے معیشت کو نہ سنبھالا تو ہمارا حال بھی سری لنکا جیسا ہو جائے گا۔ مثال اگر ہمیں دینی چاہیے تو بنگلہ دیش کی۔ ہمارے ہی جسم کا ٹکڑا تھا جو ہم سے الگ ہوا۔ سوال ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ اگر وہ ہمارے ساتھ رہتا تو کیا اس کی حالت بہتر ہوتی یا بد تر؟ بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہیں، بنگلہ دیشی ٹکا ہمارے روپے کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ تگڑا ہے، عورتوں کا ملکی معیشت میں حصہ ہم سے کہیں زیادہ ہے جبکہ دیگر سماجی اشاریے بھی ہم سے بہتر ہیں، مذہبی انتہا پسندی میں کمی آئی ہے، آبادی کو انہوں نے قابو کر رکھا ہے جبکہ ہم روزانہ اٹھارہ ہزار بچے پیدا کرتے ہیں اور اگر ہماری یہی رفتار رہی، جس کی قوی امید ہے، تو 2050 تک ہماری آبادی، انشا اللہ، اڑتیس کروڑ ہو چکی ہوگی۔ فی الحال بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے وسائل دستیاب نہیں، اندازہ کریں جب یہ ملک اڑتیس کروڑ کا ہو جائے گا تو ہماری کیا حالت ہو گی!

میں معافی چاہتا ہوں، میں نے تہیہ کیا تھا کہ کم از کم آج میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں اپنے ملک کو کمتر نہیں کہوں گا لہذا اب کوئی اور ملک تلاش کرتے ہیں جس سے ہم کسی لحاظ سے بہتر ہوں۔ ایک مثال تو سری لنکا کی ذہن میں آئی تھی، دوسری امریکہ سے لیتے ہیں۔ چند روز پہلے امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک اسکول میں اٹھارہ سال کے لڑکے نے اندھا دھند فائرنگ کر کے 17 طلبا اور دو اساتذہ کو ہلاک کر دیا، مرنے والوں میں اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے شامل تھے۔ فائرنگ کرنے والے نے (وہ چونکہ امریکی ہے اس لیے اسے دہشت گرد نہیں کہہ سکتے، مسلمان ہوتا تو اور بات تھی) اسکول جانے سے پہلے اپنی دادی کو بھی سر میں گولی مار کر ہلاک کیا اور پھر اپنی دوست کو جرمنی میں ٹیکسٹ کیا کہ اب میں اسکول میں فائرنگ کرنے جا رہا ہوں۔ امریکہ میں امسال یہ اندھا دھند فائرنگ کا 213 واں واقعہ ہے۔ امریکی اسکولوں میں بچوں کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ فائرنگ کے ایسے کسی واقعے میں انہوں نے کیا کرنا ہے اور اپنی جان کیسے بچانی ہے، یعنی یہ امریکی اسکولوں میں معمول کی بات ہے۔ فائرنگ کے ان واقعات میں مرنے والوں کی تعداد اب ٹریفک کے حادثات میں مرنے والوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ امریکہ میں ’گن لابی‘ کتنی طاقتور ہے، وہ کیسے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، امریکہ کے آئین کی کون سی شق شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے اور ان سے یہ حق واپس لینا کس قدر مشکل کام ہے یا اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے، ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ہمارے ملک میں اس بات کا تصور ہے کہ بچے اسکولوں میں اسلحہ لے کر آئیں اور یوں فائرنگ کر کے اپنے ہم عمر بچوں کا قتل عام کرتے پھریں؟ اے پی ایس کا ایک واقعہ ہوا تھا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، اس کے علاوہ، خدا کا شکر ہے کہ، ہمارے اسکولوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا امریکہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح نشہ آور ادویات بھی امریکی اسکولوں اور کالجوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کسی حد تک یہ مسئلہ اب ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکا ہے، مگر اس کی جو شدت امریکی معاشرے میں ہے، یہاں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔

آج میں نے بہت کوشش کے بعد یہ چند مثالیں تلاش کی ہیں تاکہ خود کو کچھ حوصلہ دلا سکوں کہ ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں جتنا ہم خود کو مطعون کرتے ہیں۔ سری لنکا بہت خوبصورت ملک ہے، ہمارا ہمسایہ ہے، لوگ بھی دلنواز ہیں، خدا ان کی مشکلات آسان کرے، مگر ہم سری لنکا سے ہزار درجے بہتر ہیں، سو خاطر جمع رکھیں، کچھ نہیں ہوتا!

کالم کی دم: یہ کام اگر آپ کو بے ربط لگے تو سمجھ جائیں کہ لکھاری کو فلو تھا لہذا پڑھنے میں جہاں جہاں آپ کو جھٹکے لگیں وہاں یہ سوچ کر لکھاری کو معاف کر دیں کہ اسے اچانک چھینک آ گئی ہوگی!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments