مسلم لیگ کے 112 سال – نامرادیوں سے عبارت


ایک سوبارہ سال ہوئے جب سن انیس سو چھ دسمبر کی تیس تاریخ کو ڈھاکہ کے شاہ باغ میں بر صغیر کی ممتاز مسلم رہنما جمع ہوئے تھے۔ گو یہ اجتماع آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تحت مسلمانوں کے تعلیمی مسایل پر غور کرنے کے لئے منعقد ہوا تھا لیکن اس اجتماع کے کنوینیر ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ نے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور پنجاب کے ایک جاگیر دار میاں محمد شفیع نے نام اس جماعت کا آل انڈیا مسلم لیگ تجویز کیا۔

 نئی مجوزہ جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ مرتب کرنے کے لیے 56 مسلم رہنماؤں کی ایک کمیٹی تشکیل کی گئی اور ایک سال بعد بیس دسمبر 1907 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آغا خاں کو پہلا صدر منتخب کیا گیا اور صدر دفاتر لکھنو میں قایم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گو مسلم لیگ کے بانیوں میں کانگریس کے بعض ممتاز مسلم رہنما بھی شامل تھے جن میں محسن الملک اور وقارالملک نمایاں تھے لیکن اس مرحلہ پر جب کہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی مسلم لیگ کے مستقبل کے قاید محمد علی جناح شامل نہیں تھے جن کی قیادت میں مسلم لیگ نے بر صغیر میں مسلمانوں کے لئے ایک علاحدہ ملک حاصل کیا۔

اس وقت محمد علی جناح کانگریس کے ممتاز رہنما تھے اور انہوں نے یہ کہہ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا کہ ان کی رائے میں اس نئی جماعت کا بنیادی مقصد بر صغیر کے مسلمانوں میں برطانوی راج سے وفا داری کے جذبہ کو فروغ دینا ہے۔ محمد علی جناح اس زمانہ میں متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ انہیں اپنی رائے بدلنے اور مسلمانوں کی اس نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے فیصلہ میں سات سال لگے۔

1906میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی تو اس وقت کسی مسلم رہنما کے ذہن میں بر صغیر میں ایک علاحدہ مسلم مملکت کے قیام کے خیال کا شایبہ تک نہیں تھا۔ بنیادی مقصد اس جماعت کا اس وقت محض مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے روزگار کے فروغ کے لئے جدوجہد کرنا تھا۔ دراصل اس جماعت کے قیام سے تین ماہ قبل انگریزی راج نے مسلمانوں کے اہم مطالبات تسلیم کر لئے تھے جب اکتوبر میں شملہ میں آغا خان کی قیادت میں مسلمانوں کے 36 ممتاز رہنما جمع ہوئے تھے اور وایسرائے لارڈ منٹو کو ایک یادداشت پیش کی تھی جس میں تمام سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کی بنیاد پر نمایندگی۔ ہائی کورٹس میں مسلم ججوں کی تقرری اور وایسرائے کی کاونسل میں مسلم نمایندوں کی شمولیت کے مطالبات شامل تھے۔

مسلم لیگ کے موقف میں تبدیلی اور اس کے رویے میں معرکہ آرائی کا عنصر 1911 میں اس وقت در آیا جب انگریزوں نے کانگریس کے ایجی ٹیشن کے دباؤ میں آکر بنگال کی تقسیم کو منسوخ کر کے بنگال کو دوبارہ متحد کردیا۔

اس مرحلہ پر قاید اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور 1916 میں اس نئی جماعت کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ جناح صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ کا کانگریس کے ساتھ لکھنو پیکٹ طے پایا جس کے تحت کانگریس نے ہندو مسلم جدا گانہ انتخاب کا اصول تسلیم کیا اور سرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی نمایندگی کے حق کو قبول کیا۔ قاید اعظم نے مسلم لیگ کا صدر رہتے ہوئے کانگریس سے ناطہ نہیں توڑا۔

کانگریس سے اپنے تعلقات انہوں نے 1919 میں اس وقت منقطع کیے جب گاندھی جی نے عدم تعاون کی تحریک شروع کی اور جناح صاحب کو خطرہ پیدا ہوا کہ کانگریس ہندو مسلم جداگانہ انتخاب کے اصول کی حمایت سے کنارہ کش ہو جائے گی۔ اور ان کا یہ خطرہ واقعی صحیح ثابت ہوا جب 1928 میں کانگریس نے آخر کار یہ اصول یکسر ترک کردیا۔ یہ شروعات تھی مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان محاذ آرائی کی جس نے 1937 کے انتخابات کے نتایج کے بعد کھلم کھلا جنگ کی صورت اختیار کر لی۔

ان انتخابات میں مسلم لیگ کے اس دعوی کو زبردست زک اٹھانی پڑی کہ وہ بر صغیر کی مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے۔

ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی بھاری تعداد کے پیش نظر نمایاں کامیابی کی توقع تھی اسے خفت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں اسے یونینسٹ پارٹی کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ بنگال میں فضل الحق کی سرامک پرجا پارٹی کے مقابلہ میں اس کے قدم اکھڑ گئے۔ سندہ میں بھی اسے وڈیروں کی حمایت کے باوجود کانگریس سے بری طرح ہار کھانی پڑی اور قطعی مسلم اکثریت والے صوبہ سرحد میں اسے کانگریس کے ہاتھون خفت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار نہ مل سکا۔ اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے حصول کے نشہ میں کچھ زیادہ ہی سرشار تھی ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلا کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دیا۔ گاؤ کشی پر پابندی عاید کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم قرار دیا۔

ان مایوس کن حالات میں مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور ان پر عجب بے بسی کا عالم طاری تھا۔ مسلم لیگ کے سامنے محض دو راستے تھے۔ یا تو وہ مسلمانوں کی نمایندگی پر اجارہ داری کا دعوی ترک کر کے کانگریس کے ساتھ مصالحت کر لے اور اقتدار میں شراکت پر آمادہ ہو جائے یا پھر بر صغیر کی مسلمانوں کو ڈرامائی انداز سے جھنجھوڑے اور انہیں ایک علاحدہ مملکت کے قیام کا خواب دکھائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani