مائی برادر بائے فاطمہ جناح


’’مائی برادر‘‘ کتاب فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہے۔ یہ قائد اعظم کی سوانح حیات ہے۔ اس کی اصل میں یہ انگلش زبان میں لکھی گئی ہے، جو فاطمہ جناح نے ایک انگریز پپلیشر کے کہنے پر لکھی، لیکن پہلی اشاعت پر وہ مقبولیت نہ حاصل کر سکی۔ بعد ازاں 1987 میں قائد اعظم لائبریری نے اسے شایع کیا۔ اب کے اس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ’’میرے بھائی‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ انٹرنیٹ پر یہ کتاب دونوں زبانوں میں پی ڈی ایف فارم میں موجود ہے۔ یہ کتاب بانی پاکستان کی پوری زندگی کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ ان کے پچپن سے لے کر ان کی رحلت تک کہ تمام واقعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جا بہ جا اسباق دیتی ہے، کسی حد تک ہماری کوتاہیوں کے لیے ہمیں شرم سار بھی کرتی ہے۔

ان کے پچپن کے ایک واقعے سے، ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے، کہ کسی کا یقین آپ کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے؛ خاص طور پہ والدین کا۔ اور یہ یقین کسی کو کچھ بھی بنا سکتا ہے۔ کام یاب لوگوں کے پیچھے کسی نا کسی کا یقین ضرور ہوتا ہے۔

وہ اکثر اپنی والدہ کی اس پیش گوئی کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ایک دن بڑے آدمی بن کر رہیں گے، مگر ایک گم نام نوجوان ہونے کے ناتے سے انھیں اکثر حیرت ہوتی کہ کیا یہ پیش گوئی کبھی پوری ہو پائے گی۔ قائد جب تعلیم مکمل کر کے گھریلو پریشانیوں کو کم کرنے کی خاطر وطن واپس تشریف لائے تو اس وقت ان کا مستقبل ایسے تاریک تھا، جیسے گہرا سمندر؛ مگر انھوں نے ہار نہیں مانی، حتی کہ ہندوستان کا یہ بیسٹ بیرسٹر مہینوں ایک روپیہ کمائے بغیر گھر لوٹ آتا ہے پر انھوں نے مہینوں کیا، سالوں سخت محنت جاری رکھی، بالآخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔

’’مائی برادر‘‘ سے پتا چلتا ہے، کہ سب سے پہلے انھوں نے ایک انگریز بیرسٹر کے ساتھ کام کیا اور پھر خود مقدمات لڑنے لگے اور چھا گئے۔ یہ سب قطعاً آسان نہیں تھا بلکہ مشکل سے بھرا تھا۔ قائد نے ہمت نہیں ہاری۔ قائد کی شخصیت میں نمایاں خوبیاں یہ تھیں، کہ وہ بہت نفیس انسان تھے، صاف ستھرا رہتے، اچھا بولتے، اچھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور وہ بہت ملن سار تھے۔ نئے نئے لوگوں سے ملنا انھیں پسند تھا، سماجی سرگرمیوں میں شریک رہتے۔ آج کا نوجوان قائد سے اس تناظر بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

چالیس سال تک وہ گم نام تھے مگر وہ اپنی ذات کو اس قابل بنا رہے تھے کہ عن قریب ان کا بہت نام ہو گا۔ اسی طرح آپ اچانک ایک دن اٹھ کر کچھ نہیں بن جاتے بلکہ اس کے پیچھے پوری تیاری اور بیک گراؤنڈ ورک ہوتا ہے، جو آنے والے دنوں میں آپ کی منزل متعین کرتا ہے۔ آخری ایام کئی بار وہ بستر سے سیدھا اٹھ کر جلسوں میں شرکت کرنے چلے جاتے تھے۔ اگر چہ کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہوتی۔ یہ بات فاطمہ جناح کے سوا کسی کو معلوم نہ ہوتی تھی۔

وہ اپنے چہرے سے کبھی یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کتنی تکلیف میں ہیں۔ جب بھی فاطمہ انھیں کچھ کہتیں، وہ کہتے، فاطمہ میری قوم کو میری ضرورت ہے۔ وہ اصولوں کے پکے آدمی تھے جو کمٹمنٹ کی ہوتی اسے پھر ہر صورت پورا کرتے، کھانا، پینا، آرام کرنا بھول جاتے مگر وعدہ پورا کرتے۔ آخر ان کی اور مسلمانوں کی ان تھک کوششوں سے پاکستان بن جاتا ہے۔ قائد نے یقین، کوشش اور مسلسل کوشش کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ یقین اور کوشش ہماری زندگی میں بھی انقلاب لا سکتے ہیں، اگر ہم انھیں اپنا گرو بنا لیں تو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).