میرا نام ہے سرخ …. بڑے بھائی!


\"waqarاورحان پاموک کے ناول مائی نیم از ریڈ میں جب زیتون کہتا ہے کہ” میں مشرق کی طرف جاﺅں یا مغرب کی طرف اور وہ بھی ایسی حالت میں جب اس کی ایک آنکھ چھیدی جا چکی ہے تو تیلی کہتا ہے کہ مشرق یا مغرب دونوں خدا کے بنائے ہوئے ہیں کسی طرف بھی چلے جاﺅ۔“

تیلی صحیح کہتا تھا، کہ چھیدی آنکھ والا بھی مشرق مغرب میں فرق نہیں ڈال سکتا۔ لیکن چھیدے ذہن کی کوئی ضمانت نہیں۔

روایت بڑی عزیز چیز ہے۔ محلے سے افق تک چاہے ہزار ہیئت بدلے لیکن اس کے پس پردہ نفسیاتی توجیہات ایک سی ہیں۔ آپ کو روایت اس لیے عزیز ہے کہ یہ آپ کی اور آپ کے گروہ کی شناخت ہے۔ آپ عدم تحفظ کے مارے وہ شخص ہیں جو شناخت پر حرف آنے سے دل چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ کانپنا اور زبان لڑکھڑانا شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ آپ جب پیدا ہوئے تھے تو آپ کو محلے کی روایات پر ایمان تھا۔ تھوڑا بڑے ہوئے تو گاﺅں کی روایات آپ کی پگ کی سلامتی کی ضمانت بنیں۔ آپ ذہین کہلائے تو اس نقطہ کو جا پہنچے کہ جہلم، دادو اور پشین میں فرق مٹا دیے اور سب کو پاکستان کہہ دیا۔ زیادہ ذہین ہوئے تو ملک کی سرحد عبور کر گئے۔

لیکن مشرق مغرب کی سرحد ٹاپنا ہما شما کا کام نہیں۔ مشرق مغرب کے ایک دوسرے سے غیر عقلی خوف کے ڈانڈے صدیوں پرانی قبائلی نفسیات سے جا ملتے ہیں۔

کیسی عجیب بات ہے کہ مغرب کے مقابلے میں مشرقی روایات کا دم بھرنے والے شدید عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ مشرق مغرب کی تقسیم، زمین سے ایک سو کلومیٹر اوپر جا کر کس قدر مضحکہ خیز لگتی ہے۔ بالخصوص اگر آپ زمین کی محوری اور گردشی حرکت کا مشاہدہ کر لیں۔

ہمارے دماغ کا سب سے نوعمر حصہ فرنٹل لوب چاہے ابھی تک کمزور سہی، جذبات کے مقابلے میں جلد ہار ماننے والا سہی، لیکن کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ مشرق مغرب کی تقسیم اسی کی پیدا کردہ ہے۔

آپ تھوڑی دیرکے لیے مشرق مغرب کو چھوڑ دیں۔ دو گروہ تصور کر لیں۔

دونوں گروہ نفرت، تعصب اور خوف میں جکڑے ہوئے ہیں۔دونوں میں اقلیت عقل کی حاکمیت کے لیے خواہش رکھتی ہے لیکن اکثریت ان کے

\"LEAD

سامنے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو خوف اور تعصب بیچتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ مال بیچتا ہے وہ گروہ میں راہنمائی کی اتنی بڑی پگ ٹینڈے نما سرپر سجاتا ہے۔

ایک گروہ میں لائبریریوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔دوسرے گروہ تک کچھ کتابیں جیسے ابن رشد کے ترجمے وغیرہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ یونانی علم، فکر کے ڈھیروں بیج دوسرے گروہ میں پھینک دیتا ہے۔ دماغ کے سب سے نوعمر حصے یعنی پیشانی کے پچھواڑے کو غذا مل جاتی ہے۔ دلیل کے سرمئی دھاگے عقل کے پیراہن میں تحقیق کے نمونے نمایاں کرتے ہیں۔ انسانی اوج کے مظہر اس پیراہن کو دیکھ کر اسی گروہ کے افراد آگ بگولہ ہوتے ہیں لیکن فکر کمال چیز ہے یہ بہت تیزی سے پھلتی پھولتی ہے۔Pico della Mirandola  انسانی فکر اور عظمت کا پرچم اٹھاتا ہے اور انسان کے سوال کرنے کے حق کا Oration on the Dignity of Man لکھ کر دفاع کرتا ہے۔ لیونارڈو ڈاونچی اور مائیکل اینجلو ایسے وقت میں نئے موضوعات کی تلاش میں ہیں جب مشرق گنے چنے موضوعات سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ اورحان پاموک کے مطابق سولہویں صدی اور اس سے پیشتر منی ایچر آرٹ کے فن پاروں کے چند موضوعات پڑھیے۔

1۔ چرواہے کا کتے کو پکڑنا اور پھانسی پر لٹکانا جو ااپنے ریوڑ سے ہر رات مادہ بھیڑیا کو قربت کے عوض، ایک بھیڑ پیش کرتا تھا۔۔

2۔ مطمئن بلیاں اور مضطرب کتے

3۔ کھڑکی سے غرور سے خسرو کو جھانک کر دیکھتی شیریں

4۔ چاندنی میں نہاتی شیرین کو چوری چھپتے دیکھتا خسرو

5۔ کنویں کی تہ میں سفید دیو کو ہلاک کرتا رستم

6۔ ریگستان میں سفید چیتے اور پہاڑی بکری سے دوستی کرتا محبت کا مارا مجنوں

7۔ سینگ والے اور بغیر سینگ والے۔۔۔ دم والے اور بغیر دم کے۔۔ نوکیلے دانتوں اور ناخنوں والے شیطان

موضوعات برے نہیں لیکن اس سے ہٹ کر سوچنے والے کو گمراہ تصور کیا جاتا تھا۔ جبکہ مغرب میں دلیل کے سرمئی دھاگوں کی بنت سے مزین پیراہن عقل نئے زاویے تلاش کر رہا ہے۔ دوسرے گروہ میں اس پیراہن عقل میں ملبوس درویشوں کے لیے زمین تنگ ہے۔ وقت لگ رہا ہے لیکن سفر تیزی سے جاری ہے۔

دوسرے گروہ کو پانچ سو سال کا عرصہ لگ جاتا ہے جب وہ اپنے اندر تعصبات اور خوف میں مبتلا ذہنوں کو ریاستی امور سے باہر نکال پھینکتا ہے۔

علم و فکر میں بڑھوتری کی شرح کو جانچنے کے لیے سائینسز میں بہت دلچسپ کام ہوا ہے۔یہ جمع نہیں ضربی کام ہے۔

اگر آپ ایک دفعہ غیر عقلی خوفوں اور تعصبات کو پہچان لیں اور ان سے چھٹکارا پانا شروع کر دیں تو منزل آسمان ٹھہرتی ہے۔

جنہوں نے لائبریریاں جلائیں، وہ کہاں ہیں؟

وہ آج بھی اس سماج میں ہیں جہاں کی راہنمائی وہ تعصب اور خوف بیچ کر کرتے ہیں۔

جو جتنا خوف اور تعصب بیچتا ہے اس کے پاس راہنمائی کا اسی قدر لائسنس ہے۔

چھوٹا دکاندار محلوں اور قصبوں کے مابین تعصب کی دیواریں کھڑی کرتا ہے۔ درمیانہ دکاندار بڑے پیمانے پر گروہ بندی کرتا ہے اور اپنے گروہ کو دوسرے گروہوں سے خوف دلاتا ہے متعصب کرتا ہے۔ اور سب سے بڑا دکاندار قومیت کی افیون بیچتا ہے۔ فطین مشرق اور مغرب میں حد بندی کرتا ہے۔

خوف اور تعصب بیچنے کی مقدار سے ٹیلی ویژن کی ریٹنگ کا تعین ہوتا ہے۔

یہاں کا استاد آسودہ ہے کہ شاگردوں میں ثقافت سوال ناپید ہے۔

سیاستدان آسودہ ہے کہ خوف اور تعصب میں مبتلا کیڑے مکوڑے تابع ہیں۔

 مذہبی راہنما آسودگی کی بلندیوں پر ہیں۔

جب کہا جائے کہ دیکھو، ہر کلاس روم میں بچہ ایسے استاد کی ویڈیو بنائے جو سائنس کو بطور سائنس پڑھائے۔\"images\"

جب کہا جائے کہ دیکھو، باپ کی حکم عدولی کا اشتہار نہیں چلنا چاہیے۔ باپ کا حکم بلاچوں چرا ماننا مشرقی روایات کا حسین حصہ ہے۔

جب قوم بیٹی کے موضوع پر بنے اشتہار دیکھ رہی ہو تو کوئی راہنما بیٹی کی اچھلتی چھاتیوں کی جانب توجہ مبذول کرائے۔

سمجھ جائیے کہ عملی زندگی میں نااہل اور عدم تحفظ کا مارا خوف کا بیوپاری خود خوفزدہ ہے۔

جب کہا جائے کہ مغرب میں طلاق کی شرح تو دیکھیں۔ ہماری مشرقی روایات بہت خوبصورت ہیں۔ ایک خاندان ہوتا ہے۔ عورت کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ حاصل ہے۔ ہم کسی طور عورتوں کی آزادی یا خود مختاری کا بل پاس نہیں ہونے دیں گے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی طلاق کی شرح مغرب کی شرح کو جا پہنچے۔

جان لیجئے کہ شکست خوردہ ذہنیت سر اٹھاتی اپنے حقوق کو پہچانتی عورت سے ڈر چکی ہے۔

ذرا اندازہ کیجئے اس شکست خوردہ ذہنیت کا کہ جو زندگی کی ہر دوڑ میں پیچھے رہ گئی۔ اس کے پاس کچھ نہیں بچا۔ بس چند گمراہ کن شماریات کا سہارا بچ گیا ہے۔

طلاق نہیں ہونے دیں گے۔ چاہے کوئی عورت تیل چھڑک کر آگ لگا لے یا کوئی مرد گلیوں میں سر پر مٹی ڈالتا رسوا ہو جائے۔

چاہے بچے ذہنی و جذباتی طور پر منقسم گھر میں جہنم کا روز مشاہدہ کریں یا گھر کا کوئی فرد خودکشی کر لے۔

بھئی طلاق نہیں ہونے دیں گے۔ ہماری مشرقی پوتر روایات کو مغرب کیا جانے۔ اور دیکھیں اگر پھر بھی طلاق ہو گئی تو ہم عورت کے جہیز میں آئے کپڑوں کو قینچی سے کاٹ کر بھیجیں گے۔ اگر وہ اپنا بچہ کسی عدالتی حکم پر لے گئی ہے تو اس کو کہیں شادی نہیں کرنے دیں گے۔ ہم شادی کریں گے لیکن اگر وہ کہیں شادی کرے گی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر بچہ واپس لیں گے۔ مامتا سے مجبور وہ کہیں شادی نہیں کرے گی۔ یہی اس کے لیے سبق ہو گا۔ چند مشرقی بچی کھچی روایات کو بچانے کے لیے ہم کچھ بھی کریں گے۔ ہمارا مقصد کسی پر ظلم زیادتی نہیں لیکن مشرق کے تقدس پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

مشرق کی روایت ہے کہ لڑکیاں وہاں شادی کرتی ہیں جہاں ان کے ماں باپ فیصلہ کرتے ہیں۔ پسند کی شادی خالص مغرب سے آیا فحش تصور ہے۔ باپ گھر کا سربراہ ہے۔اسے سب فیصلے کرنے کا حق ہے۔

کیا یہ سب سماج کے طاقتور طبقے (استاد، باپ، سیاسی راہنما، مذہبی راہنما) کی بقا کی جنگ لڑتے دکھائی نہیں دیتے؟

باپ کی حکم عدولی اور فیصلے میں اختلاف کرنا کسی طور ایک بات نہیں ہے۔ باپ سے فیصلے میں اختلاف نے دنیا میں تنوع پیدا کیا ہے۔

آپ کو نہیں لگتا دنیا کی ساری ترقی اور بہتریوں کا تنوع کہیں کسی نہ کسی جگہ باپ سے اختلاف میں پنہاں ہے۔

موچی کے بیٹے نے موچی کے کام سے بغاوت کر دی۔ لوہار کی اولاد نے سرکاری نوکری حاصل کر لی اور آبائی وطن سے لوہار کی شناخت کا ’داغ‘ دھونے ہجرت کر گیا۔ کیمسٹری کے پروفیسر کا بیٹا گھر سے بھاگ کر سپورٹس مین بن گیا، مولوی کا بیٹا مشہور و معروف گلوکار بن گیا۔

 کیا پیشوں کی اس تبدیلی میں دنیا جہاں کے تمام باپوں کی رضامندی شامل تھی؟

دوسرے گروہ نے بارہویں صدی میں سفر شروع کیا تھا۔ بہت قربانیوں اور صبر کے بعد ایک مقام تک پہنچا۔

جغرافیائی فاصلوں کی وجہ سے پہلا گروہ، دوسرے گروہ کے تجربات، مشاہدات کا علم حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ پستا رہا۔

 دوسرے گروہ میں اقلیتی پست ذہنیت پہلے گروہ کی کم عقلی سے فائدہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس پر قابض بھی ہوتی رہی اور وسائل کو لوٹتی بھی رہی۔

لیکن منظر تبدیل ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور گلوبل ویلج جیسے تصورات نے فاصلے مٹا دیے ہیں۔\"51esw3\"

اب سوال اٹھے گا۔

گروہی تقسیم اور متعصب رویے کم ہوں گے۔

دکاندار پریشان ہیں کہ سرخ رنگ سامنے دکھائی دے رہا ہے۔

 سرخ رنگ کہ جوانقلاب کا رنگ ہے۔ ملامتی صوفیوں کا رنگ ہے۔ یہ وارث شاہ، حافظ، شاہ حسین، فیض، راشد اور شیو کمار بٹالوی کا رنگ ہے۔

یہ سرخ رنگ ہے کہ جس کی طول موج ( nm 780 – 622) سب سے زیادہ ہے۔

اور سائنس کی شد بد رکھتے ہو تو جانتے ہو گے کہ سرخ رنگ تمام رنگوں میں سب سے کم خم کھاتا ہے۔

اور یہ تو جانتے ہی ہو گے کہ سرخ رنگ کے لہراتے رومال کو دیکھ کر کون مشتعل ہوتا ہے۔

میں سرخ ہوں، آتشیں ہوں، خود کو چھپاتا نہیں ہوں۔ دور سے نظر آتا ہوں

مشرق و مغرب کی تقسیم سے کاروبار حیات چمکانے والوں کو چودہ صدیاں قبل پیغام دیا جا چکا ہے۔

اور مشرق و مغرب اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے، بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے، البقرہ 115

 

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments