کوہالہ ہائیڈل پاور منصوبہ بھی نہ شروع ہو سکا



دار الحکومت مظفر آباد میں گذشتہ چند ماہ سے شہری کوہالہ ہائیڈل پاور منصوبے کے موجودہ ڈِزائن کو تبدیل کرانے کے لیے احتجاجی مہم چلا رہے ہیں۔ ڈھائی بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز، دسمبر 2018ء تک شروع ہونا تھا جو عوامی احتجاج کے باعث تعطل کا شکار ہے۔

یاد رہے کہ پاک چین اقتصادی راہ داری کے تحت براہ راست سرمایہ کاری کا یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ ناقص منصوبہ بندی، واپڈا اور مقامی حکام کی غفلت اور پیشہ ورانہ استعداد میں کمی کے باعث چینی تعمیراتی کمپنی Three Gorges Corporation, انجینئرز اور مقامی عملے کو نکالنے اور مشینری کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے منصوبے کو ان دنوں حتمی شکل دے رہی ہے۔

کوہالہ ہائیڈل پاور منصوبہ دار الحکومت اسلام آباد سے 84 کلومیٹر دور دریائے جہلم پر واقع ہے۔ دراصل یہ نیلم جہلم ہائیڈل پاور منصوبے کے طرز پر دریائے جہلم سے 17.4 کلومیٹر طویل سرنگ کے ذریعے 1124 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ سرکاری اداروں سے منصوبے کے لیے عدم اعتراضات سرٹیفکیٹ حاصل کیے جا چکے تھے، حتی کہ زمین کے حصول کے لئے ڈیڑھ ارب روپے کی خطیر رقم بھی حکومت آزاد کشمیر کو چینی کمپنی نے ادا کردی تھی۔ چینی انجینئرز اور مینجمنٹ کا عملہ تعمیراتی سائٹ پر کیمپ لگا چکا تھا۔

گذشتہ سال اپریل میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 969 میگا واٹ کے نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کا افتتاح کیا تو ملک بھر میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ منگلا اور تربیلا کے بعد پن بجلی کا اتنا بڑا منصوبہ پہلی بارمکمل ہواتھا۔ بد قسمتی کے ساتھ اس منصوبے کے غیر متوقع خطرناک ماحولیاتی اثرات کا برقت جامع تجریہ نہ کیا جا سکا۔

چناںچہ دریائے نیلم چند ہفتوں میں راولپنڈی کے نالہ لئی کی شکل اختیار کر گیا۔ تعفن سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ پانی کے چشمے خشک ہو گئے۔ گاؤں والے شہر کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ لگ بھگ تیس ہزار افراد کو مظفر آباد میں کرائے کے گھروں میں منتقل ہونا پڑا۔

نقل مکانی کا یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ کوئی پتھر دل ہی ہو گا جو سرسبز سبز پہاڑوں کو سیاہ پتھروں میں تبدیل ہوتا دیکھ کر دکھ اور کرب میں مبتلا نہ ہو۔ شہر میں درجہ حرارت بڑنے سے گرمی کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ دریا رواں دواں رہے گا اور سارا پانی نہیں روکا جائے گا۔

شہر کے گردونواح میں ایسی جھیلیں بنائی جانی تھیں جو درجہ حرارت کو ایک سطح پر تھامے رکھتیں۔ شہر یوںکو تازہ پانی فراہم کرتیں۔ یہ سب وعدے ایفا نہ ہوسکے۔ اضطراب کی لہر احتجاج میں ڈھل گئی ۔’’دریا بچاؤ مظفر آباد بچاؤ‘‘ مہم دیکھتے ہی دیکھتے عوامی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔

عالم یہ ہے کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹ پر کام روکنے کی سفارش کر دی۔ حکام نے سنی ان سنی کردی اور منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا۔ حکام بھول گئے کہ مقامی آباد ی اور حکومت کے تعاون کے بغیر اور انہیں میگا منصوبے کے ثمرات میں شراکت دار بنائے بنا قومی نوعیت کے منصوبے تکمیل پا بھی جائیں تو بھی وہ قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

حکومت آزاد جموں و کشمیر نے عوامی دباؤ کے آگے سرجھکایا اور وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس منصوبے پر کام شروع کرنے سے پہلے شہریوں کے خدشات اور شکایات کا ازالہ کرے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے واپڈا اورآزاد کشمیر کے حکام کے مابین تعلقات کار میں تناؤ پایا جاتا ہے۔

مظفر آباد کی حکومت کو شکایت ہے کہ نیشنل گرڈ میں بجلی کا ایک بڑا حصہ ہمارے دریاؤں کے مرہوں منت ہے۔ باوجود اس کے طوفانی سردی میں بھی انہیں 15 گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لگ بھگ بچاس برس قبل منگلا ڈیم کا افتتاح کیا گیا لیکن اس کی رائیلٹی / پانی کے استعمال کے چارجز خیبر پختون خوا یا پنجاب کے مساوی نہیں دیے جاتے۔

واپڈا کے حکام بجلی کے منصوبوں پر تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل باقی صوبوں کے برعکس حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ رسمی معاہدہ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ مظفرآباد کے حکام غیر رسمی طور پر شکایت کرتے ہیں کہ واپڈا نے اپنے وعدوں کو خال خال ہی ایفا کیا۔

پانی اور بجلی کے استعمال پر مقامی حکومت کو نظر انداز کرنے اور مساوی حقوق نہ دینے کے باعث آزاد کشمیر کے طول وعرض میں زبردست احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ مظفرآباد کے لوگ ان سرکاری افسروں اور حکمرانوں کی عقل پر ماتم کنا ں ہیں جو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے خطرناک ماحولیاتی اثرات کو سمجھنے میں ناکام رہے یا پھر بد دیانتی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل اور نااہلی نے نہ صرف مظفر آباد شہر کو بھی زبردست ماحولیاتی مسائل سے دو چار کیا بلکہ تمام دیگر ہائیڈل منصوبوں کی تعمیر کو بھی خطرے میں ڈال دیا ۔

بد قسمتی سے نیلم جہلم منصوبے کے ماحولیاتی اثرات پر قابو پانے، مظفرآباد کو صاف پانی کی فراہمی اور فضلے کو ٹھکانے کے متبادل انتظام اور دریا کو رواں رکھنے میں ناکامی نے یہ دن دیکھایا کہ اتنے اہم قومی منصوبے کی تعمیر میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس کالم نگارکو بتایاکہ عوامی تحفظات کا ازالہ کیے بغیر کوہالہ منصوبے پر تعمیراتی کام کی بحالی ممکن دیکھائی نہیں دیتی۔

انہوں نے تجویز کیا کہ واپڈا نیلم جہلم پراجیکٹ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنا بوجھ وہ ہم پر ڈالے بغیر یہ مسائل حل کرے تاکہ کوہالہ ہائیڈل منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوسکیں۔وزیراعظم فاروق حیدر کی گفتگو سے آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ ان کی حکومت سرنگ ٹیکنالوجی کے حق میں نہیں۔

مظفرآباد کے تمام سیاسی اور سماجی گروہ متفقہ طور پر مطالبہ کررہے ہیں کہ کوہالہ پراجیکٹ پر تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل ماحول دوست ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے تاکہ دریائے جہلم کی روانی متاثر ہواور نہ مقامی آبادی کو نقل مکانی کاشکار ہونا پڑے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے جسے پورا کرنے کے لیے سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں۔

وفاقی حکومت کو پہل قدمی کرتے ہوئے واپڈا اور حکومت آزادکشمیر کے مابین تمام حل طلب مسائل کو حل کرانا چاہیے۔ قومی منصوبوں کو سرکاری اداروں کی روایتی محاذ آرائی کا شکار نہیں ہونا دیناچاہیے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو بچانے کی خاطر وزیراعظم عمران خان کو خود بھی دلچسپی لینی چاہیے۔پیش نظر رہے کہ ایک دفعہ اگر یہ منصوبہ لٹک گیا تو دوبارہ اسے شروع کرنے میں کئی ماہ وسال لگ سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood