فارورڈ بلاک جانچنے کا آسان طریقہ


بچپن سے’’ٹھنڈا کرکے کھائو‘‘ والی بات سنتے چلے آرہے ہیں۔اس حقیقت کا بھی ذاتی طورپر کئی بار ادراک ہوا کہ کھانا وہی لذیذ ہوتا ہے جسے ٹھنڈی آنچ پر مناسب وقت لے کر پکایا جائے۔ تحریک انصاف کے لوگ مگر اتاولے ہیں۔ہر وقت جھپٹ کر پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنے کے جنون میں مبتلا۔

ایک حوالے سے ان کی آنیاں جانیاں موجودہ حکومت کو کئی سنگین معاملات سے توجہ ہٹانے میں مدد دیتی ہیں۔مثال کے طورپر اس وقت میری دانست میں اہم ترین سوال یہ نہیں کہ آصف علی زرداری اپنی ہمشیرہ اور بلاول سمیت جیل جارہے ہیں یا نہیں۔ اپنے رزق کے لئے تنخواہ پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد کی طرح مجھے اصل پریشانی اپنے بجلی اور گیس کے بلوں کے بارے میں لاحق ہے۔

اسد عمر صاحب نے وزارتِ خزانہ سنبھالتے ہی اعلان کردیا تھا کہ گزشتہ دس برس کی بدعنوان حکومتیں قومی خزانے کو خالی کرگئی ہیں۔ہماری درآمدات پر ہوئے خرچ اور برآمدات کے ذریعے آئی رقوم کے مابین فرق بے تحاشہ گھمبیر ہوچکا ہے۔غیر ملکی قرضوں کی اقساط بھی دینا ہیں۔معاملات یوں ہی رہے تو ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر میں شاید ایک ڈالر بھی باقی نہ رہے۔

قومی خزانے کی زبوں حالی کا مسلسل ذکر کرنے کے بعد مفتاح اسماعیل کے تیارکردہ بجٹ پر نظرثانی ہوئی۔ترقیاتی اخراجات پر شدید Cutلگا۔ حکومتی آمدنی بڑھانے کے لئے ٹیکس وصولی کے نظام کو مزید مؤثر اور ہمہ گیر بنانے کے فیصلے ہوئے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔خیال تھا کہ یہ سب اقدامات اٹھانے کے بعد حکومت IMFسے کسی Bailoutپیکیج کے لئے رجوع کرے گی اور لوگ صاف ذہن کے ساتھ نئے حالات سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہوجائیں گے۔

ہمیں مگر یہ بتایا گیا کہ IMF والے کچھ ایسی شرائط عائد کرنا چاہ رہے ہیں جن پر عمل ہو تو پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں پریشان کن حد تک گرجائے گی۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔حکومت کے پاس اس کے باوجود سڑکوں،سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے خاطرخواہ رقم موجود نہیں ہوگی۔شاید اچھے دنوں کی امید میں یہ سب برداشت کرلیا جاتا مگر IMFسے کچھ ایسی تجاویز وصول ہونے کی بات بھی چلی جسے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔

قومی خودمختاری کے تحفظ کی خاطر وزیر اعظم سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور چین کے دوروں پر روانہ ہوگئے۔ان کی کاوشوں کی بدولت پاکستانی معیشت کو تگڑے سہارے مل جانے کی خبرآئی۔ معاشی محاذ پر اس کے باوجود استحکام نظر نہیں آیا۔ اب بات یہ ہورہی ہے کہ پاکستان کی ریاست کو اپنا کاروبار چلانے کے لئے کم از کم 200ارب روپے مزید درکار ہیں۔

اس رقم کی حصول کو یقینی بنانے کے لئے جنوری میں ایک ’’منی بجٹ‘‘ لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ اس خبر سے فطری طورپر پریشان ہے۔ کاروباری افراد بھی سمجھ نہیں پارہے کہ اپنے دھندے میں قرار کیسے لائیں۔

معیشت سے جڑے اہم ترین اور بنیادی سوالات کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بنائی ایک JIT کی رپورٹ دریافت ہوگئی۔اس رپورٹ کے سپریم کورٹ میں سیل بند لفافوں میں پیش کرنے کے باوجود اس سے جڑی تفصیلات کو نہ جانے کس طرح منکشف کرتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر رونق لگ گئی۔

بجلی اور گیس کے بلوں کے بارے میں فکر مند ہونے کی بجائے ہمیں ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا جو بظاہر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کے سفر پررواں ہے۔یہ گرفتاری ابھی ہوئی نہیں مگر سندھ میں ’’فارورڈبلاک‘‘ کا شور مچ گیا ہے۔

وفاقی وزیر علی زیدی فرمارہے ہیں کہ 22کے قریب اراکین سندھ اسمبلی پیپلز پارٹی سے بغاوت کرنا چاہ رہے ہیں۔ان باغیوں کو ساتھ لے کر پیر پگاڑا کی GDAسے معاونت طلب کرنے فواد چودھری صاحب کو سندھ بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔

فواد چودھری صاحب سے ایک زمانے تک گہرے مراسم رہے ہیں۔وہ یقینا بے تحاشہ خوبیوں سے مالامال ہیں۔ میرے لئے البتہ یہ دعویٰ حیران کن انکشاف تھاکہ موصوف سندھ کی سیاست کے ایکسپرٹ بھی ہیں۔ اس صوبے کے معاملات کو برطانوی دور کے نیپیئر اور جیکب کی طرح سمجھتے ہوئے مراد علی شاہ کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹاکر اپنے چنے ہوئے کسی اور شخص کو یہ منصب عطا کرسکتے ہیں۔

پیر کی صبح چھپے کالم میں میری استدعا بس اتنی تھی کہ جلدی نہ کریں۔آصف علی زرداری کی گرفتاری کے لئے سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔اعلیٰ ترین عدالت نے اگرمناسب سمجھا تو وہ نیب کو مراد علی شاہ کے خلاف ویسی ہی تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے جیسی نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جاری رہی تھیں۔سارے قصے کے منطقی انجام کا انتظار کریں۔مراد علی شاہ کو ہٹاکر اپنا بندہ لانے کی بے چینی سے احتراز کریں۔

یہ کالم لکھتے ہوئے بھی مجھے احساس تھا کہ انگریزی محاورے والی بطخ کے پروں پر پانی ڈال رہا ہوں۔کہنے میں کیا حرج ہے والا رویہ اختیار کیا۔اس رویے کا ’’مجھے ہے حکم اذان‘‘والی اصول پرستی اور بلند آہنگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ سندھ کی سیاست کو بطوررپورٹر80 کی دہائی سے نگاہ میں رکھتے ہوئے محض دو جمع دو کیا تھا۔

تحریک انصاف کو ٹھنڈا کرکے کھانے میں دلچسپی نہیں۔ 2011ء سے اس نے دریافت کیا ہے کہ سیاست فقط ریگولر اور سوشل میڈیا پر ہلچل مچانے تک محدود ہے۔ اس ہلچل کی بدولت انہوں نے 25 جولائی کے انتخابات کے بعد وفاق کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی اپنی حکومتیں قائم کرلی ہیں۔

بلوچستان کی حکومت ان کی تابعدار ہے۔ سندھ میں ’’غیر‘‘ کو وہ کیوں برداشت کرے جبکہ اس کے پاس اس صوبے میں عمران اسماعیل،علی زیدی اور فیصل واوڈا جیسے متحرک اور جی دار لوگ موجود ہیں۔میڈیا میں گزشتہ دس برسوں سے سندھ کا ذکر آئے تو بھتہ خوری بوری بند لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ کی بات ہوتی رہی۔

2016کے بعد اس ضمن میں خاموشی ہوئی تو کراچی کا کچرا اور تھر میں بچوں کی اموات نیوزسائیکل میں نمایاں ترین ہوتی ہیں۔JITکی رپورٹ آنے کے بعد اس ساری بدحالی کو آصف علی زرداری کی مبینہ حرص کے ساتھ منسوب کرنا آسان تر ہوگیا۔ سندھ کو ’’اچھی حکومت‘‘ فراہم کرنے کے لئے ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ والا ماحول پیدا ہوگیا۔

کرپشن کے خلاف مسلسل جنگ کی تمنا رکھنے والی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر متحرک Baseاس موقعے کا ہاتھ سے پھسلنا گوارہ نہیں کرے گی۔اس بیس کی تسلی اور تشفی کے لئے پیپلز پارٹی کے ’’فارورڈ بلاک‘‘ کا ذکر ضروری ہے۔اتاولے پن میں لیکن کوئی یاد ہی نہیں رکھ پارہا کہ ’’فارورڈبلاک‘‘ کو ٹھوس انداز میں Show کرنے کا ایک ا ٓسان طریقہ موجود ہے۔

سپیکر سندھ اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔ اس کے لئے خفیہ رائے شماری ہوگی۔ اس رائے شماری کی بدولت پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں ’’اصل قوت‘‘عیاں ہوجائے گی۔یہ عیاں ہوجائے تو مراد علی شاہ کے پاس ازخود استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی راہ نہیں بچے گی۔ناک کو اگر سامنے سے پکڑا جاسکتا ہے تو خواہ مخواہ ہاتھ گھماکر تماشہ کیوں لگارہے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).