ملبے کا مالک


شہر کے رواں پیش منظر میں ایک اور اضافہ ہوا ہے۔ بدرنگ، بے ڈھب، آڑی ترچھی عمارتوں کے درمیان اور ٹوٹی پھوٹی ادھڑی مگر بے حد مصروف سڑکوں کے دونوں طرف جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ پتّھر، روڑے، سیمنٹ کے ٹوٹے ہوئے بلاک، اینٹیں، اینٹ کا چورا، بُھربھری ریت کی ڈھیریاں۔ یہ راتوں رات اُگ نہیں آئے۔ آپ ان کو دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ انجام ہے تجاوزات کے خلاف اس مہم کا جو ابھی تھوڑے دن پہلے بڑے زور و شور سے جاری تھی۔

اس پر بہت لے دے ہوئی، کچھ لوگوں نے تعریف کی مگر ان سے زیادہ لوگوں نے احتجاج کیا، بے سہارا کر دیے جانے والے لوگوں کی بات ہوئی۔ جواب میں سرکاری اراضی پر ناجائز قبضے کی بات ہوئی۔ محصول ادا نہ کرنے اور شہر کے فائدے اٹھانے کی بات ہوئی۔ بحث چلتی رہی اورپھر جیسا کہ ہمارا معمول بن گیا ہے، گرد و غبار بہت اڑا مگر پھر آہستہ آہستہ چند دن میں دب گیا اور وہی بے ڈھنگی رفتار واپس آ گئی۔

کراچی کے بیش تر شہریوں کی طرح ایمپریس مارکیٹ میرے لیے بھی ایک آئیوکونک (iconic) حیثیت رکھتی تھی، اس لیے دیکھنے ہم بھی گئے۔ تجاوزات کے خلاف اس مہم کی زیادہ تر توانائی اس عمارت کے اردگرد خرچ ہوئی، یعنی کارروائی کی بھی اور بحث کی بھی۔ مجھے اس کی بھیڑ بھاڑ اور ہجوم اچھی طرح یاد ہے بلکہ میری زندگی کے ایک پورے حصّے میں اسے نشان محفل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور پھر اس ہجوم اور چھوٹی بڑی دوکانوں کی ریل پیل کے بارے میں میری جو بھی رائے ہو، اس وقت ایمپریس مارکیٹ مجھے اُجڑا دیار معلوم ہو رہی ہے۔

مٹ میلی، اکیلی اور ویرانی کے تاثر سے عبارت۔ اب اس کے بعد کیا ہوگا، یہ کوئی بھی واضح طورپر بتانے سے قاصر ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو بلڈوزر لے کر اس کی طرف چڑھ دوڑے تھے۔ نقشہ میں سبز رنگ کے ٹکڑوں کے ساتھ تصویر اخبار میں آئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پارک بنے گا۔ چلیے، یہ کون سی بری بات ہے مگر کراچی کے لوگوں نے ایسے پارک بہت بنتے دیکھے ہیں۔ بستے اور ہرے بھرے ہوتے نہیں دیکھے۔ اس پارک کا منصوبہ کیا ہوگا، کس ترتیب سے ہوگا اور صدر کے علاقے کی بہت واضح پرانی ترتیب میں کس طرح شامل ہوگا، اس بارے میں جب کوئی بات نہیں ہوئی تو شہریوں کی رائے یا ماہرین کا مشورہ بھلا کس طرح شامل ہوسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی، بس بل ڈوزر پر بیٹھے اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو کچلتے ہوئے روانہ ہو گئے۔

اگر کسی چیز کو ڈھانا ہی مقصود تو تھا تو لوہے کے اس فریم کو گرا دیتے جو ایمپریس مارکیٹ کے عین سامنے پوری سڑک پر بے ہنگم سایہ کیے ہوئے ہے۔ یہاں فوڈ اسٹریٹ بنے گی اور اس مقصد کے لیے یہ فریم لگایا گیا ہے، وہاں موجود کوئی شخص مجھے بتاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ فوڈ اسٹریٹ کا نام سن کر میری حیرت ختم نہیں ہوتی۔ ثقافتی بحالی کے نام پر ایک یہ فوڈ اسٹریٹ ہی کیوں حکام بالا کے ذہن میں آتی ہے۔ شہروں میں لوگ کھانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتے آئے ہیں اور جب صدر کے علاقے میں امی جمی تھی تو اس کی شُہرت زبان کے چٹخارے کے لیے نہیں تھی بلکہ وہ شہر کا تہذیبی مرکز تھا۔ یہی حیثیت سب سے پہلے ختم کی گئی۔

بڑے بڑے اداروں میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے لوگ اس طرح کے منصوبے بہت بناتے ہیں۔ بہت طمطراق سے اعلان کرتے ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح کے منصوبے کے تحت فوڈ اسٹریٹ بنانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھیے کہ شہر میں اس طرح کے علاقے خود بخود بن جاتے ہیں۔ فیز فائیو کے بدر کمرشیل ایریا میں نت نئی وضع کے بین الاقوامی ریستوران کے ریل پیل دیکھیے۔ ٹیپو سلطان روڈ پر حال ہی میں کھُلنے والی ایسی جگہوں کی پوری لین ڈوری بن گئی ہے۔ اور ساحل کے کنارے ہوٹلوں کی وہ پٹّی جہاں کراچی کے مال دار لوگ جوق در جوق جاتے ہیں اور اسے دو دریا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس مقبولیت کے باوجود آئے دن یہ سُننے میں آتا رہتا ہے کہ ان تمام ہوٹلوں کو ڈھا دیا جائے گا۔ یعنی ان کی جگہ بھی آپ کو ملبے کا ڈھیر دکھائی دے گا۔

نئی فوڈ اسٹریٹ کی دھوم دھام سے پہلے ان جگہوں کی خبر تو لیجیے جو پہلے سے بن گئی ہیں اور لوگوں میں مقبول ہیں۔ فوڈ اسٹریٹ کے بجائے ملبے کا خیال مجھے اخبار کی خبر پڑھ کر آیا۔ لکھا تھا کہ شہری محکموں کے پاس ملبہ اٹھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اچھا، شاید انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ تجاوزات گرانے اور عمارتیں ڈھانے کے بعد ملبہ بھی ہوگا اور اسے اٹھانا بھی پڑے گا۔ اس ملبے کو بھی انہوں نے کراچی کے کچرے کی راہ پر چھوڑ دیا کہ یوں ہی پڑا رہنے دو۔ اگر آپ ہی آپ اٹھ گیا تو ٹھیک ہے ورنہ کراچی کے لوگ اس کے بھی عادی ہو جائیں گے۔

ایک ایمپریس مارکیٹ پر موقوف نہیں، ملبے کے یہ ڈھیر شہر میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ بعض جگہ حکام نے یہ کام کیا اور بعض جگہ ان کے ڈر کے مارے لوگوں نے خود ہی انہدام کا فریضہ سرانجام دیا۔

حد سے بڑھے ہوئے چھجے، بالکنی، دیواریں خود ہی گرا دیں اور ان کی نشانی کے طور پر ملبے کے یہ ڈھیر رہ گئے۔ اور ہر ڈھیر پر قضیہ کہ کون اٹھائے گا؟

شہری محکموں کے پاس توڑ پھوڑ کا جذبہ تو بہت ہے مگر صفائی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ذمہ داری کا احساس بھی نہیں۔ بڑی فراخ دلی کے ساتھ ملبہ اور اس کی پوری ذمہ داری کسی دوسرے محکمے کے سر چپکا دیتے ہیں۔ کراچی میں ملبے کی اس بہتات کے بارے میں مجھے ایک پرانی کہانی یاد آگئی۔ ملبے کا مالک امرتسر کے پس منظر میں ہے اور اسے ہندی کے نامور افسانہ نگار موہن راکیش نے لکھا جو تقسیم کے بعد ابھرنے والی اور افسانہ نگاری کو ایک نئی جہت دینے والی اس باہمّت اور دلیر پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے جس میں نرمل ورما اورکملیشور جیسے باکمال بھی شامل تھے۔

موہن راکیش کی یہ تحریر اردو میں کئی بار ترجمہ ہوچکی ہے اور ان میں سے غالباً تازہ ترین وہ انتخاب ہے جسے ”آزادی کے بعد ہندی کہانیاں“ کے نام سے کملیشور نے ترتیب دیا۔ اس کا اردو ترجمہ نیشنل بُک ٹرسٹ نے دہلی سے 2012 ء میں شائع کیا۔ بہت سی اچھی کہانیوں کے درمیان میں نے اس جانی پہچانی کہانی کو پھر پڑھا جیسے ایک پرانے دوست سے ملاقات ہو جائے۔

قصّہ یوں ہے کہ چراغ دین درزی کا باپ غنی لاہور سے امرتسر آتا ہے، اپنے پرانے مکان کو دیکھنے جہاں اس کا بیٹا اور باقی خاندان والے مارے گئے۔ اس کی ملاقات رکھّے پہلوان سے ہوتی ہے جس نے اس کے خاندان کو قتل کیا تھا کہ مکان پر قبضہ کرسکے۔ غنی کو یہ بات معلوم نہیں۔ وہ مکان کی جگہ ملبے کا ڈھیر دیکھ کر افسردہ ہو جاتا ہے۔ پہلوان کا اندیشہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ غنی کچھ کہے گا مگر محلّے کے لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگتے ہیں :

”اب دونوں آمنے سامنے آگئے ہیں تو بات ضرور کھُلے گی۔ پھر ہو سکتا ہے کہ دونوں میں گالی گلوچ بھی ہو۔ اب رکھّا غنی کو کچھ نہیں کہہ سکتا، اب وہ دن نہیں رہے۔ ملبے کا بڑا مالک بنتا تھا! اصل میں ملبہ نہ اس کا ہے نہ غنی کا۔ ملبہ تو سرکار کی ملکیت ہے۔ “

روتا دھوتا غنی چلا جاتا ہے تو رکھا پہلوان ملبے کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ مگر اس جگہ کے استعمال کے خلاف اور دعوے دار بھی سامنے آجاتے ہیں۔ ایک کوّا وہاں آکر بیٹھ جاتا ہے تو ایک کونے میں لیٹا ہوا کتّا زور زور سے بھونکنے لگتا ہے۔ پہلوان نے پتھر اٹھا کر بھی مارا مگر کتّے کا بھونکنا بند ہی نہیں ہوا۔ آخر پہلوان خود ہی اٹھ کر وہاں سے چل دیا۔ کتّا کان جھٹک کر ملبے پر لوٹ آیا اور وہاں ایک کونے میں بیٹھ کر غرّانے لگا۔

یہ افسانہ ہے، حکایت نہیں۔ اس میں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ لیکن کان لگا کر سنیے کراچی میں جابجا جمع ملبے کے کسی ڈھیر سے آواز آرہی ہے۔ کائیں کائیں بھوں بھوں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا، ملبے کا مالک کون ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).