سیاست کو سیاست سمجھیں، نواز شریف کی طرح حق و باطل کا معرکہ نہیں!


جاوید میانداد دنیائے کرکٹ کے عظیم بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 1975 سے 1996 تک ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرنے کے علاوہ ملک کے کامیاب کپتان بھی رہے ہیں۔ کرکٹ شائقین کو 1986 میں شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں بھارت کے خلاف چتن شرما کی آخری گیندپر ان کا یادگار چھکا ہمیشہ یاد رہے گا۔ میانداد اپنے زمانہء عروج میں ایک مرتبہ کسی میچ میں امپائر کے متنازعہ فیصلے کا شکار بن گئے۔ امپائر نے لیگ اسٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند پر انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا۔

اس زمانے میں کرکٹ میں ابھی تھرڈ امپائر کی خدمات متعارف نہیں کی گئی تھیں۔ امپائر کا ہر فیصلہ حتمی سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں ایکشن ری پلے سے پتہ چلا کہ میانداد آؤٹ نہیں تھے۔ متنازعہ فیصلے سے قطع نظر میانداد کے ناقدین نے ان سے ہمدردی کرنے کے بجائے یہ اعتراض جڑ دیا کہ امپائر کا فیصلہ اپنی جگہ مگر جاویدمیانداد جیسے منجھے ہوئے اور ماہر بلے باز نے گیند پیڈز پر لگنے ہی کیوں دی؟

میانداد سے متعلق یہ واقعہ ہمیں محترم نواز شریف پر ان دنوں گزرنے والی قیامت کا احوال دیکھ کر یادآیا۔ نواز شریف پاکستانی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ خوش قسمت، بھرپور اور یادگار و باوقار کردار مانے جاتے ہیں۔ منہ میں سونے کاچمچ لے کر پیدا ہونے والے نواز شریف کو اللہ تعالٰی نے عنفوانِ شباب ہی میں عزت، دولت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ نہایت محنتی، حکیم، نباض، جفاکش، زمانہ و مردم شناس والد کی تربیت سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

بہترین تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دولت کی ریل پیل نے کسی قسم کے احساس محرومی کو دل میں جاگزیں نہیں ہونے دیا۔ تعلیم یافتہ، خلیق، باوفا، ملنسار، صاحب بصیرت اور سیاسی سوجھ سے مزین رفیقہء حیات کا ساتھ میسر آیا۔ اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت اور فہم و فراست کے باوجود سیاسی میدان میں قدم رکھتے ہی جنرل ضیا الحق جیسے مربی نے راتوں رات سیاست کے افق کا چمکتا دمکتا ستارا بنا دیا۔ وہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے منصب پر متمکن رہنے کے علاوہ تیں مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہے۔

مگر بدقسمتی سے ایک مرتبہ بھی مدت پوری نہیں کر سکے۔ ہر بار بصد رسوائی وزیراعظم ہاؤس سے نکالے گئے۔ آخری بار 2017 میں تو بقول غالب بڑے بے آبرو ہو کر پی ایم ہاؤس سے نکلنے کے بعد کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دیے جانے کے علاوہ سیاسی جماعت کی صدارت سے بھی ہاتھ دھو کر پے در پے کرپشن کے مقدمات میں مجرم گردانے گئے اور آج کل کرپشن اور ناجائز اثاثہ جات کے جرم کی پاداش میں کوٹ لکھپت جیل میں سات سال کی قید بامشقت کاٹ رہے ہیں۔

نواز شریف، ن لیگ اور ان کے حامیوں و ہمددردوں کو پختہ یقین ہے کہ نواز شریف کو کسی جرم کی نہیں بلکہ سول بالادستی کا مقدمہ شدومد سے لڑنے کی سزا دی جارہی ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کے خلاف فیصلوں کے پس پردہ مقتدر حلقے ہیں، نیب، عدلیہ اورجے آئی ٹی وغیرہ تو مہرے ہیں۔ ان کے خلاف آنے والے فیصلے طاقت کے حقیقی سرچشموں کے ایوانوں میں مرتب ہو رہے ہیں۔ ورنہ جو الزامات ان پر لگا کر اس انجام سے دوچار کیا گیا ویسے الزامات تو موجودہ حکومت کے بے شمار کل پرزوں پر بھی ہیں۔ پانامہ میں تو ساڑھے چار سو افراد کے نام تھے، سزا صرف ایک نواز شریف کو کیوں ملی؟ وزارتِ عظمٰی سے معزولی کے بعد نواز نے اسی بیانیے کی ترویج کی جسے ملک اور بیرون ملک بہت پذیرائی ملی۔

نواز شریف اور ان کے حامیوں کا نقطہء نظر اپنی جگہ مگرکیا حقیقت یہی ہے؟ نواز شریف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ذمہ دار صرف مقتدر ادارے ہی ہیں یا اس میں خود نواز شریف کا اپنا قصور بھی ہے۔ اگر تمام معاملات کا حقیقت پسندی اور گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو جو کچھ نواز کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے سو فیصد ذمہ دار خود نواز شریف ہیں۔ آپ خود ہی سوچیے کہ اگر سڑک پر رانگ سائڈ سے اندھا دھند ٹرک آپ کی طرف آ رہا ہو تو کیا آپ صرف اس لیے اپنی گاڑی اس میں دے ماریں گے کہ بائیں طرف سے جانا آپ کا حق ہے؟

جب آدمی کو یقین ہو کہ دیوار سے سر ٹکرانے کا نتیجہ اس کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلے گا تو کون پاگل یہ خطرہ مول لے گا؟ دیوار سے ٹکرانے کے بجائے پسِ دیوار دیکھنے کا ہنر پیدا نہیں کرنا چاہیے؟ یہ سچ ہے کہ اقتدار طاقت و اختیار کا بے رحم کھیل ہے۔ اس میں بیٹا باپ اور باپ بیٹے کو آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے مگر اسی کے ساتھ اہلِ اقتدار سیاسی بصیرت، دوراندیشی، معاملہ فہمی، فہم و فراست، مصلحت کوشی اور حکمت و دانش جیسے اوصاف سے بھی تو مزین ہوتے ہیں۔

کیا نواز شریف اتنے اناڑی تھی کہ وہ اپنی مختصر سیاسی تاریخ سے بھی نابلد تھے؟ اس سے قبل سترہ وزرائے اعظم کے انجام سے بے خبر تھے؟ بھٹو جیسے مضبوط وزیراعظم کی پھانسی سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ملک کے اصل حکمرانوں اور بادشاہ گروں سے پنگا لینے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟ انہیں پتہ نہیں تھا کہ یہاں ستر سال سے کس کی جنبشِ ابرو سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں؟ ہم برائے بحث تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ذمہ دار مقتدر حلقے ہیں مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس کا موقع بھی خود نواز شریف نے خود دیا ہے۔

انہوں آ بیل مجھے مار کا نعرہء مستانہ بلند کر کے اپنا اقتدار، عزت، نیک نامی اور سیاست سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ وہ سویلین بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کی جنگ اس سے کہیں بہتر انداز اور تدبر و ہنرمندی سے بھی تو لڑ سکتے تھے۔ سیاست تو انتہائی نامساعد حالات میں بھی امکانات کے نئے افق تراشنے اور گھٹن اور حبس کے ہنگام بھی تازہ ہوا کے لیے دریچے وا کرنے کے راستے بنانے کا نام ہے۔ سیاست اقتدار تک پہنچنے اور اسے قائم رکھنے کی کامیاب تگ و دو کا نام ہے۔

یہ حق و باطل کا معرکہ تو نہیں۔ جو لوگ سیاست کو سیاست سے ہٹ کر معرکہء حق و باطل سمجھ کر لڑتے ہیں انہیں نواز شریف کے بھیانک انجام سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ جاں بازی و جاں فروشی کی ہر ادا بہادری و شجاعت نہیں ہوتی۔ کچھ جارحیتیں سراسر حماقت اور خودکشی بھی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف نے غیر ضروری بہادری کے زعم میں اپنی اور اپنی سیاسی پارٹی پر خودکش حملہ کیا ہے۔ ان کی زندگی ایسی بلندی ایسی پستی کی عبرت انگیز مثال بن کر رہ گئی ہے۔ میانداد کی طرح انہیں بھی اپنے کیرئر کے عروج پر اپنی زندگی کی سیاسی اننگز کھیلتے ہوئے گیند پیڈز پر لگنے کاموقع دے کر یوں پویلین نہیں لوٹنا چاہیے تھا۔ بقول الطاف حسین حالی

حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).