قلعہ دراوڑ: کس خرابے میں مجھے چھوڑ گئی درباری


جب بجے راؤ کے بیٹے دیو راج نے ایک پروہت بابا رت کے کہنے پر خود کو جوگی بنایا اور علم کا سنیاس لیا، تب جانے اُس کے من میں کیا بات سمائی ہوگی، جو اُس نے چولستان کے اِس لق و دق صحرا میں اپنی چھوٹی سی کٹیا بنائی؟ اور جب اُس کا سنیاس پورا ہوا اور وہ دیوراج سے دیوراول (جوگی) کہلایا، تب اِس گرد اُڑاتے بیابان صحرا میں، جہاں دریائے ہاکڑا ہولے ہولے بہا کرتا تھا، ایسے ہیبت ناک اور پُرجلال قلعے کا نقشہ ترتیب دیتے وقت اس کی کیا کیفیت رہی ہوگی؟ ایسا شاندار قلعہ جو بعد میں ڈیرہ راول، پھر ڈیرہ آور اور اب قلعہ دراوڑ کہلاتا ہے اور ہاں خزانے کے ڈھیر کی وہ کہانی بھی، جانے اس کا اختتام کیا ہوا ہوگا؟ جو نویں صدی کے اس حیرت ناک عجوبے کے انہدام اور شکستگی کے ساتھ ہی ماضی کے بوجھ تلے دفن ہوتی چلی گئی۔

قلعے سے جڑی ایسی کتنی ہی کہانیوں اور اتنے بہت سے سوالوں کے ساتھ ہم نے گردن اٹھا کر، صحرائے چولستان کی بیکراں ریت میں دھنسے ماضی کے اس بارعب شاہکار کو دیکھا جو آج بھی اپنے دیکھنے والوں کو تاریخ اور جنگوں کے وہ فسانے سناتا ہے جن کی لرزہ خیزیوں کی دھول، اِس گرم اور خشک صحرا میں اڑتی پھرتی ہے ۔ یہ اِن حالیہ دنوں کی یاد ہے جب ہم نے سرما کی تعطیلات میں تاریخ کے کسی قدیم باب میں جھانکنے کا قصد کیا تھا۔ یوں ہماری پہلی منزل قلعہ دراوڑ کی شکل میں متعین ہوئی جہاں تاریخ نے اپنے انمٹ نقوش اِ س دیوہیکل قلعے کی شکل میں چھوڑ دیے ہیں:

چولستان کا وسیع و عریض صحرا جہاں
گرد اڑتی ہے، خاک جھڑتی ہے
مٹتے جاتے ہیں قافلوں کے نشاں
آہستہ آہستہ بہتی چلی جاتی ہے
ریت، وہ جس کی ذرہ نما سینکڑوں آنکھوں نے
دیکھے تاریخ کے بوسیدہ شکستہ مینار
آلودہ جاہ و جلال کی تمکنت میں مقید
کتنے نوحے سر بہ زانو، کتنی جنگوں کی ہار
منہدم تاریخ کے خستہ پامال گھومتے چاک
وقت کی بے رحم صورتوں کوروز نیا
چہرہ دیتے ہیں اور مٹادیتے ہیں

عکاسی: آصف زیدی

یقیناََ آپ اِس قلعے کو بارہا میڈیا کے مختلف چینلز، اشتہارات و اخبارات میں دیکھ چکے ہونگے۔ لیکن اِس کے بارے میں آپ جانتے ہی کتنا ہیں؟ چالیس مضبوط اونچے برجوں سے بنا یہ قلعہ، جسے وقائع راجھستان کے مطابق نویں صدی میں راجہ دیول نے تعمیر کیا اور جس پر بعد میں اس کی نسلیں آپس میں لڑ جھگڑ کر حکومت کرتی رہیں۔ بعد ازاں یہ قلعہ ریاست بہاولپور کے عباسی خاندان کے قبضے میں رہا، جسے ریاست بہاولپور نواب محمدصادق اول نے 1735ء میں فتح کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کرائی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد بھی یہ قلعہ جنگ اور بیرونی حملوں کا مرکز رہا یہاں تک کہ آخری بار عباسی خاندان کے نواب محمد مبارک خان نے 1806 میں ایک بار پھر اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔

قلعے کے بلند آہنی دروازوں سے، جہاں کسی زمانے میں ہاتھی پر سوار راجا بھی قلعے کے حکمران راجاؤں کی اجازت سے گزرا کرتے تھے، اب وہاں عام آدمی بھی ’نذرانہ‘ پیش کر کے اندر جا سکتا ہے۔ بلند و بالا آہنی دروازے پر لگی نوکیلی سلاخیں، جو دشمن کے چنگھاڑتے بدمست ہاتھیوں کے لشکر کی ضرب کو بھی روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں، خود کو وقت کے بے رحم ہاتھوں سے محفوظ نہ رکھ پائیں۔ اس جائے عبرت کی ان ہیبت ناک، طویل القامت فصیلوں کے اندرجانے کتنے ہی راجے مہا راجے اپنے اپنے وقت کے فرعون رہے ہوں گے، اُن کا رعب اور دبدبہ کیسا دل دہلا دینے والا ہو گا۔ جانے کتنی فریادیں روز گڑگڑاتی ہوں گی اور اپنے سنے جانے سے قبل ہی دم توڑ دیتی ہوں گی۔

کیسے کیسے مناظر ہیں !جو آن کی آن میں تخیل میں ابھر آتے ہیں، ’جنگوں اور لڑائیوں میں مرتے سپاہیوں کی دلدوز چیخیں، ظلم اور جارحیت سے بھرپور قہقہے، آنسوؤں سے لپٹی جاں بخشی کی التجائیں، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے حملہ آور، فاتحین کے نعرے، جنگ سے گھائل تڑپتے بلکتے لوگوں کی سسکیاں، وحشت بھرے رقص، پیاس کی شدت سے نڈھال قیدی، مال و متاع اور اقتدار کی ہوس، بیڑیوں کے بوجھ سے نڈھال، گرد آلود چہرے، پھانسیوں پر جھولتی نعشیں، آگ، خون، ماتم اور جانے کیا کیا کچھ ہے‘ جو آپ اس قلعے کی فصیل کے باہر وقت کی لہروں پر با آسانی سن اور دیکھ سکتے ہیں ۔
لیکن جونہی آپ ان آہنی دروازوں سے اندر قدم رکھیں گے وقت کے گردش آپ کو چونکا دینے والی حد تک گھما کر رکھ دے گی۔

باہر سے یہ قلعہ جتنا ہیبت ناک اور پُر جلال ہے اندر سے اِس کی خستہ حال شکستہ دیواریں، ٹوٹی پھوٹی محرابیں، گرتے ستون، ادھڑے ہوئے فرش اور ہر جانب سے منہدم ہوتے آثار، جنھیں ظالم وقت نے بڑی تیزی اور مہارت سے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے،بار ہا آپ سے اپنے بچاؤ اور تعمیرِ نو کی التجا کرتے نظرآئیں گے۔ آپ بار بارگھوم کر کسی گائیڈ یا راہ دکھانے والے کا اتا پتہ پوچھیں گے اور کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا۔ کسی قسم کا کوئی سائن بورڈ، تاریخ کی داستان سناتا کوئی بینر، کوئی ایسانشان نہیں ہو گا جو آپ کو اس منہ زور تاریخ کے قصے سنائے۔ یہاں ہو کا وہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ! اگر کوئی چیز یہاں باقی رہ گئی ہے تو وہ ’وقت ‘ہے۔ وقت ۔۔جسے زوال نہیں، جو تخت و تاج کو تاراج کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جس کے بھید بھی اُسی کی طرح پُراسرار اور لافانی ہیں، جو نہ رکتا ہے، نہ جھکتا ہے اور نہ تھکتا ہے!

خوبصورت پچی کاری سے منقش چھتیں اور محرابیں جو کسی زمانے میں، اپنے بنانے والے کی محنت، محبت اور مہارت کا عکس ہونگی، اب لٹکی ہوئی زمین کو چھوتی ہیں۔ جھروکوں سے سامنے کی طرف نظر آتی دہلی کی موتی مسجد سے مشابہ، اجلی سفید ویران عباسی مسجد اور شاہی قبرستان کے گنبد، تب کیسا شاندار نظارہ دیتے ہونگے۔ خوبصورت برآمدے، نقش و نگار سے آراستہ کھڑکیا ں اور دروازے، جن سے گزرنے والے لوگوں کا ذوق بھی ان جیسا ہی نفیس ہوگا، اب اپنی اجڑی اور ویران حالت کا نوحہ پیٹتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے ایسے قیمتی ورثے کو سنبھالنے میں اتنے ناکام کیوں ہیں۔ ہماری تاریخ کی ایسی شاندار تہذیبی نشانی کی اِس زبوں حالی پر، دل قدم قدم پر دُکھتا ہے، ماضی کے قصوں کا قبرستان بنا یہ قلعہ، جو اندر سے کافی حد تک زمیں بوس ہوگیا ہے،حکومت اور عباسی خانوادے، دونوں کی بے توجہی کا گلہ کرتا ہے اور اب محض اپنے بیرونی خستہ برجوں کے سہارے پر کھڑے ہوکر، ہر آنے والے کو اپنے فنا ہونے کی داستان سناتاہے۔یقین مانیے! وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنے بچوں کو محض اس کی تصاویر دکھا کر ہی اِس کے ہونے کا ثبوت دیا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).