آئی جی سندھ کی تبدیلی، حکومت سندھ کو ڈٹ جانا چاہیے!


پچھلے کچھ دنوں سے آئی سندھ کے تبادلے کو لے کر وفاق اور صوبہ سندھ میں ٹکراؤ کی سی کیفیت نظر آتی ہے، اس ٹکراؤ کو بڑھانے میں سندھ کی متعصب گورنر اور پی ٹی آئی کی ناعاقبت اندیش صوبائی تنظیم کے کچھ سندھ دشمن عہدیداران پیش پیش ہیں۔ آئینی اعتبار سے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور وہ یہ اختیار رکھتے ہیں کہ کسی صوبائی ادارے کا سربراہ جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہو، وہ صوبائی حکومت کے ان احکامات جو آئین کے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے جاری کیے گئے ہوں ان کی بجاآوری میں کوتاہی، نا اہلی کا مرتکب ہوا ہو یا ان کی تعمیل سے گریزاں نظر آئے تو صوبائی حکومت کابینہ کی منظوری سے اس افسر کی تبدیلی کے لئے وفاق سے فوری رابطہ کرے اور اگر اس کی خدمات واپس وفاق کے سپرد کردے تو یہ اس کا آئینی، جمہوری مینڈیٹ ہے۔

اگر کسی بھی صوبائی حکومت کا ماتحت افسر اپنے تبادلے یا جواب طلبی کی صورت میں حکومت کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے صوبائی حکومت کے جائز آئینی اقدام کے خلاف ذرائع ابلاغ میں حکومت مخالف مہم چلانے اپنے تبادلے کے رکوانے کے لئے عدالتوں میں جاکر صوبائی حکومت کے انتظامی اختیارات کو چیلنج کرے، صوبے میں حکومت مخالف قوتوں کا آلۂ کار بن کر خفیہ و حساس سرکاری دستاویزات و رپورٹس کو منظرِ عام پر لانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائے تو یہ صوبائی حکومت کا آئینی حق ہے کہ صوبے میں اپنی حکومت کی انتظامی رٹ کو بحال رکھنے کے لئے وہ وفاق سے ایسے افسران کے خلاف نہ صرف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کرے بلکہ اس افسر کے فوری تبادلے اور اس کی خدمات فوری طور وفاق کو واپس کرنے کی کارروائی بھی کرے۔

سندھ حکومت نے آئی جی سندھ کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کی چارج شیٹ پیش کی ہے جس کے متن میں جائے بغیر، سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے اختلافات کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آئی جی سندھ کی رپورٹس جو متعلقہ اداروں سمیت حکومت کے پاس ہونی چاہیئں وہ پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے ارکان کے پاس سے برآمد ہو رہی ہیں۔

ایس ایس پی شکار پور رضوان کی جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا کہ ایک وزیر امتیاز شیخ ان کا بیٹا اور ان کا بھائی اپنے فرنٹ مینوں سمیت جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں، جرائم پیشہ افراد کے ذریعہ اپنے مخالفین کو کچلنے کی کارروائیوں انہیں جانی نقصان پہنچانے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور جس کی امتیاز شیخ صاحب واشگاف الفاظ میں تردید کر چکے ہیں اور ایس ایس پی رضوان کے کرپشن میں ملوث ہونے اور ان پر متعصب ہونے کا الزام لگا چکے ہیں، وہ رپورٹ بھی متعلقہ فورم پہ جانے کے بجائے اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی کے ان عہدیداران کی پاس پہلے پہنچی جو کسی نہ کسی طور پہ حکومت سندھ کے خلاف نہ صرف محاذ آرائی میں پیش پیش رہتے ہیں بلکہ سندھ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں بھی جُتے رہتے ہیں۔

سندھ پولیس کی اسی ایس ایس پی رضوان نے کراچی سے پیپلز پارٹی کے اہم رہنماء صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کے بھائی پہ بھی الزامات لگاتے ہوئے انہیں منشیات فروشوں سے روابط اور ان کی پشت پناہی کرنے کی رپورٹ سندھ کی حزبِ اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی کو بھجوائی جس پر صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی فوری اور شدید ردعمل دیتے ہوئے نہ صرف ان الزامات کی سختی سے تردید کردی بلکہ ایس پی رضوان کے الزامات پہ وزیر اعلیٰ سندھ کو انکوائری کرنے کی درخواست بھی کردی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے سترہ ماہ میں پنجاب، خیبرپختونخوا میں چار چار پانچ پانچ بار آئی جیز تبدیل ہو سکتے ہیں تو سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کے ی سفارش پہ بھی اسی طرح صوبائی آئی جی کو تبدیل کردیا جانا چاہیے، مگر شاید سندھ کے لئے آئین و قانون الگ ہے، آئینی طور پر صوبے کے انتظامی سربراہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ ہیں تمام ادارے، ان کے سربراہان وزیرِ اعلیٰ کے ماتحت ہیں، وزیرِ اعلیٰ سرکاری ملازم نہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں، جبکہ سرکاری اداروں کے اہلکار و افسران اعلیٰ ملازمین ہیں اور ان پر سروسز رولز کا اطلاق ہوتا ہے۔

صوبے کے منتخب انتظامی سربراہ ہونے کے ناتے وزیرِ اعلیٰ اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنے ووٹرز اور صوبے کے عوام کو جوابدہ ہیں جبکہ سرکاری افسران سروسز رولز کے تحت صوبوں اور وفاق میں اپنی سرکاری ذمے داریاں انجام دینے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومت کے انتظامی احکامات پہ عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔

آئی جی سندھ وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات بجائے وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِ اعظم کے آگے پیش کرنے کے میڈیا میں ہیرو بننے کی کوششوں میں مصروف رہے اوپر سے حکومت سندھ کے مخالفین کی شہہ پر اپنے حلف اور سرکاری ذمے داریوں کے برخلاف وہ کئی بار پریس کانفرنسز اور میڈیا میں متنازعہ بیانات کے ذریعے سندھ حکومت کی سبکی کا سبب بنتے رہے ہیں۔

آئی جی سندھ کی سندھ میں تعیناتی سے پہلے سندھ میں جرائم کی شرح بہت کم تھی، کراچی سے اسٹریٹ کرائمز میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی جبکہ بھتہ خوری، موبائل فون چھیننے سمیت دیگر معاشرتی جرائم میں بھی کمی واقع ہوئی تھی، اندرونِ سندھ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی نمایاں حد تک کمی واقع ہوگئی تھی مگر آئی جی سندھ کلیم امام صاحب کی تعیناتی کے بعد سے سندھ ایک بار پھر جرائم کی فہرست اور شہ سرخیوں کی زینت بننے لگا۔

سپریم کورٹ نے سندھ میں گٹکے، مین پوڑی کے استعمال اس کی تیاری پہ سخت اور فوری پابندی عائد کردی تھی مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ میں گٹکا اور مین پوڑی بجائے بند ہونے کے پولیس کی سرپرستی میں پہلے سے زیادہ اور دوگنی تگنی قیمت پی نہ صرف کھلے عام بکنے لگی بلکہ یہاں تک کہ حیدرآباد سمیت اندرونِ سندھ کے کچھ اضلاع میں باقاعدہ پولیس اہلکاروں کی زیرِ نگرانی اور ان کی مدعیت میں اس پابندی زدہ کینسر کے مرض کی ترسیل ہونے لگی جو آج بھی جاری و ساری ہے۔

حکومت چلانے کے لئے تمام صوبائی ادارے حکومت کے طابع ان کے آئینی قانونی شرعی احکامات کی پابندی کرنے اور من و عن ان پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں مگر اگر صوبے میں امن و امان، عوامی جان و مال کے محافظ ادارے کا سربراہ ہی اپنے عہدے کا آئینی تقدس پامال کرے، اپنی آئینی ذمے داریاں احسن طریقے سے انجام دینے سے گریزاں ہو اور اپنے سرکاری منصب کو سیاست زدہ کردے اور اس کے ماتحت صوبے کے انتظامی سربراہ اور ان کی کابینہ کے افراد پہ ہی الزام تراشیاں کرنے لگیں تو پھر کارِ سرکار کیسے چلے گا۔

سندھ کی صوبائی حکومت نے آئی جی سندھ اور ان کے چند افسران کے خلاف جو آئینی قانونی مؤقف اختیار کیا ہے سندھ حکومت کو اس پر ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، اور اپنی انتظامی رٹ کو بحال رکھنا چاہیے، وفاق کو بھی مہم جوئی ترک کرکے حکومت سندھ کی سفارشات کو اہمیت دینی چاہیے اور صوبے کے منتخب عوامی وزیرِ اعلیٰ کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی جانب سے تجویز کی گئی تبدیلی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ سندھ کے عوام کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کی تاثر کو کم کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments