کائنات اور انسان بادشاہ


کائنات کے متعلق بسیط سائنسی علم، جدلیاتی ارتقائی بنیادوں پر کائناتی لامحدودیت اور غیر ثفور ہونے کی طرف ایماءزن ہے۔ قدیم یونانی فلاسفر ہیرا اقلاطیس اور بارامانیاس کا تخیلانہ تفکر کائنات کے عدم سے وجود میں آنے یا وجود سے عدم میں ڈوبنے پر ردو کد کرتا ہے۔ جبکہ ہیگل اور مارکس نے کائنات کے اس پُرپیچ نظام کو ایک اور آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مارکس ابتدائی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ مادہ دو خاصیتیں اپنے اندر بالضرور رکھتا ہے۔

پہلی زمان و مکاں میں وجود کا موجود ہونا دوسرا حرکت و تغیر کرسکنے کی سکت کا حامل۔ اس جدلیاتی ستیزہ کاری کے لئے مارکس عمل، ردِ عمل اور امتزاج جیسے اصولوں کو بنیاد بناتا ہے۔ جس کی کل بناءاس نے مادیت پر رکھی ہے۔ ”جو موجود ہے اس سے زیادہ وجود ممکن ہے“ یہ نظریہ جدلیاتی فلسفیوں کے ہاں کائنات کے پُراسرار رازوں پر کمند پھیکنے کے مترادف نظریہ سمجھاجاتا ہے جبکہ کائنات کی تشکیل کے متعلق کاسمولوجی دوطرح کے متضاد دعاوی پیش کرتی ہے پہلا یہ کہ کائنات ایک بڑے حادثے کا نتیجہ ہے جسے ”Big Bang“ (انفجارِعظیم ) یعنی بڑے دھماکے کا نتیجہ متصور کیا جاتا ہے۔

اس نظریے کی بنیاد انفلیشنری ملٹی ورس ہے۔ سادہ لفظوں میں ہماری کائنات کا وجود ایک دھماکے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونا ایک عام سا واقعہ ہے۔ انفلیشنری ملٹی ورس میں بگ بینگ ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری کائنات کے جیسی یا اس سے بالکل مختلف وجود میں سینکڑوں کائناتیں قرارپکڑتی رہتی ہیں۔ جبکہ اس کے بالمقابل نظریہ ”یکسانی حالت“ کہلاتا ہے۔ یکسانی کیفیت سے مراد یہ کہ کائنات ہمیش و ازل سے اپنی اسی حالت میں ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ تسلسل سے مادے کی پیدائش بھی جاری رہتی ہے جس کا ٹائم اینڈ اسپیس کے بڑھنے، گھٹنے سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ کائنات سائنسی زبان میں Universe کہلاتی ہے۔ جس کی عمر 13 ارب 70 کروڑ سال ہے۔ اس کائنات میں اپنے مدار (orbit) کے گرد گردش کرنے والا جسم ”سیارہ“ جب کہ جمود اختیار کیے رکھنے والا ( اپنے گرد گردش جاری رکھے ) جسم ستارہ کہلاتا ہے۔ (جیسا کہ ہماری زمین بھی ایک سیارہ اور سورج ستارہ ہے۔ اسی نسبت سے اردو زبان میں کسی کے ابتلاء اور مصیبت میں پڑنے پر ”ستارے گردش میں ہونا“ مستعار محاورتاً لیاجاتا ہے ) نیلگوں نظر آنے والے اس اُفقی خلاء میں کھربوں سیاروں اور ستاروں سے مزین ومرصع یہ نظامِ فلکیات حیرت انگیز طور پر ایک بہت دلچسپ معمہ ہے۔

بے شمار سورج اور لا تعداد چاند، کے علاوہ چھوٹے بڑے کھربوں اجرام اس کا جسم ہیں۔ جو اپنے مرکز کے گرد بہتے ہوئے گزرتے ہیں۔ یہ اجسام اس universe میں لا تعداد سیاروں اور ستاروں کی شکل میں مل کر اپنے گلیکٹک گروپس بناتے ہیں۔ جن کی تعداد مشاہداتی اندازے میں 172 بلین تک ہے۔ یہ چکردار کہکشائیں ایک نقطے کے گرد گھومنے والے سیاروں، ستاروں، گردوغبار اور مختلف انواع کی گیسوں کا مرغولہ ہیں۔ یہ گلیکٹک گروپس اتنے بڑے ہیں کہ بڑے اسکیل کی نسبتی تقسیم پر ”سوپر کلسٹر“ بن جاتے ہیں۔

اس وسیع و عریض، یخ، ہمہ گیر جوف میں واحد مثالی مقام کہکشاؤں کے درمیانی خلاء میں چھائی دائمی تاریکی ہے۔ ان بے شمار کہکشاؤں کے گروپ میں Virgo Super cluster لاتعدادکہکشاؤں میں سے چند کہکشاؤں کا ایک گروپ ہے۔ جو مزید تقسیمی عمل کے بعد مختلف ”Group Galaxies“ بناتاہے۔ گروپنگ میں بننے والی یہ ہر ہر کہکشاں خود اپنے اندر بھی لاتعداد کہکشائیں سموئے ہوئے ہوتی ہیں۔ اسVirgo Super Cluster نامی کہکشاؤں کے گروپ میں تقسیم در تقسیم کے عمل کے باوجود کھربوں سیارے، سیارچے اورستارے اپنا وجود دھارتے نظر آتے ہیں۔

جن کا آپسی فاصلہ اربوں نوری سال پر محیط ہے۔ Virgo super cluster بننے والے اس گروپ کو مزید گروپس میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جس کے ایک ”Local Group“ کی سب سے بڑی کہکشاں ”اینڈرومیڈا“ کے ہمسائے میں نسبتاً چھوٹا سائز رکھنے والی ایک ”Galaxy“ کہکشاں واقع ہے۔ جسے سائنسی اعتبار سے ”مِلکی وے“ کہا جاتا ہے۔ اینڈرو میڈا کو ہمارے نزدیک ہونے کے باوجود ہمسائیگی ثابت کرنے کے لئے اپنی روشنی ہماری زمین تک اگر لاناہوتو اس کے لئے اسے 25 لاکھ نوری سال درکارہیں۔

”مِلکی وے“ کا قطر ایک لاکھ نوری سال جبکہ موٹائی ایک ہزار نوری سال ہے۔ یہ کہکشاں 200 سے 400 ارب کے درمیان ستارے اپنے اندر پروئے ہوئے ہے۔ ہماری آنکھ رات کے وقت جن ستاروں کو دیکھتی ہے یہ سب ہماری اسی کہکشاں کا حصہ ہیں۔ جو نہایت قریب لگنے کے باوجود 25 ملین میل کی دوری پر ہیں۔ ہماری یہ کہکشاں ”تھالی“ کی شکل لئے گُھپ تیرگی میں اس اندازسے تیر رہی ہے۔ کہ اگر اسے کسی اور کہکشاں سے دیکھا جائے تو یہ دودھیے رنگ کے ایک ایسے ”اسپرنگ“ کی مانند نظر آتی ہے۔

جس کے تمام سیارے اسپرنگ کے عین ”بازو“ پر واقع ہیں۔ اسی نسبت سے اسے Orian Arm کہتے ہیں۔ اسOrian Arm میں سورج سمیت نو سیاروں پر مشتمل نظامِ شمسی (Solar System) رواں دواں ہے یہ نظامِ شمسی 162 چاند، 4 بونے سیارے جبکہ 8 بڑے سیاروں کے ساتھ کروڑوں چھوٹے چھوٹے اجرامِ فلکی اپنے شکم میں لئے ہے۔ اس کا سب سے بڑا سیارہ (jupiter) مشتری ہے اور ہم اس کے تیسرے سیارے زمین (Earth) پر رہتے ہیں۔ ہمارا گھر (زمین) تفتیشیت و تشلیکیت کے بخیے ادھڑنے پر کسی طور بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ثابت نہیں ہوتا۔

بلکہ اس کل آفاقی نظام میں ایک ذرے کی حیثیت سے دبیز سایوں کے تاریک اندھیروں کے ڈوبے ہوئے فلکِ سحر میں مستقل تیر رہا ہے۔ ہماری زمین (Earth) پر سینکڑوں انواع واقسام کے جانداروجودیت کے حامل ہیں۔ جہنیں سانس کے لئے آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، نیوٹریشن کے لئے خوراک اور نمود کے لئے توانائی درکار رہتی ہے۔ ان بے شمارجانداروں (organisms) میں ”انسان“ کی نوع کا تعلق اینیمیلیا سے ہے۔ Homo Sapien ”عقلمند انسان“ ہونے کی وجہ سے یہ نوع خود کو اینیمیلز کنگڈم کہتی ہے۔

”یعنی جانوروں کا بادشاہ“۔ Multi Cellular Oraganism کہلانے والے اس انسان بادشاہ کی اصل شناخت اس کا اینیمیلیا کے فائلم ”کورڈیٹا“ سے ہونا ہے۔ کورڈیٹا ( chordata) یعنی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا جانور۔ یہ شناخت آگے چل کر کور ڈیٹا کی کلاس (mammals) ممالیہ کہلاتی ہے۔ جو دراصل اینیمیلز میں تمیز و تخصیص رکھتی ہے۔ یہ نوع یعنی ”انسان“ بچے جننے اور مادہ کے دودھ پلانے کی وجہ سے ممالیہ کہلاتا ہے۔ دودھ پلانے والے جانوروں میں بھی انسان تقسیمی اعتبار سے Order Primate ہے۔

یعنی انسان ہنسلی کی ہڈی رکھتا ہے۔ محض ہنسلی کی ہڈی ہونا شاید خصوصیت کا حامل نہیں۔ بلکہ اصل اور اہم چیز Order Primates والے جانوروں میں ”انسان“ کا ”Hominidae“ یعنی ہنسلی کی ہڈی ہونے کے باوجود مکمل سیدھے کھڑے ہونے کی نہ صرف صلاحیت رکھنابلکہ چپٹے چہرے کے عین اوپرتین پاؤنڈکے بڑے دماغ کے ساتھ پیروں اور ہاتھوں کا مکمل آزادانہ استعمال کرسکنے کی صلاحیت سے متصف ہونا انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

انسان بڑے بڑے گروپس کی صورت میں بودوباش اختیار کرتاہے اور باہم اعانت سے بڑے بڑے کام دنوں میں کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ سوچنے اور یاد رکھنے کے علاوہ تخیل کو تحریر و تصویر پہ اتارنا، محسوسات اور جنم لینے والے جذبات زبان سے ادا کرنا ”انسان“ کے امتیاز کی چند بنیادی وجوہات ہیں انسان کی ہتھیار اور اوزار بنانے کی قدرت اور Food Chain یعنی اپنی ضرورت کی غذا حاصل کرنے کی قابلیت نے اسے دوسرے جانداروں سے الگ کر دیا ہے۔

ممکن ہے ان کھربوں کہکشاؤں میں موجود ستاروں کے گرد رواں دواں سیاروں پر ارتقائی مرحلہ وار وجودیت اپنے اتباط و ثبات میں ڈھلنے لگی ہو یا ڈھل چکی ہو۔ اور سیارے کی سطح پر ٹھوس مادے کی کاریگری سے ذہین حیات ارتقاء پذیر ہوچکی ہو۔ مگر یہ پیدا ہونے والی ہماری کائناتی ہم زیست حیات کیسی ہے؟ اوراسکے خدو خال، کیمیائی حیاتیات، حسیاتی حیاتیات، تاریخ، سیاست، سائنس، مذہب، فلسفہ ٹیکنالوجی، فنونِ لطیفہ وغیرہ کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب ٹھنڈی انگڑائی کیسا تھ گہرا سکوت ہے۔ مگریہ طے ہے کہ اس کرہ ارض کے حیاتیاتی مالیکیول ڈی آکسی رائبوکلیئک ایسڈ میں سب سے طاقتور تسخیرنوع ”انسان بادشاہ“ ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).