آزاد میڈیا کے لئے میجر جنرل آصف غفور کا پرچہ ترکیب استعمال


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کھرے اور سچے آدمی ہیں۔ وہ جب بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں دل کھول کر دیکھنے اور سننے والے کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے نیک طینت آدمی کی باتوں کا برا نہیں منانا چاہئے بلکہ ان کی دلچسپ باتوں سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ بصورت دیگر قومی مفاد کا ان دیکھا ہیولا کچھ کر گزرے تو اس میں فوج یا اس کے ترجمان کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں میجر جنرل آصف غفور نے ملک میں جمہوریت کی ضرورت اور اس کے لئے پاک فوج کی خدمات کا ذکر کرنے کے علاوہ یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس وقت دنیا کے کسی دوسرے ملک میں میڈیا اتنا آزاد نہیں ہے جتنی خود مختاری پاکستانی میڈیا کو حاصل ہے۔ اگرچہ ان کی باتوں سے یہ اندازہ تو نہیں ہو سکا کہ ان کے خیال میں یہ اچھی بات ہےیا اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس قدر آزادی بھی کئی طرح کے ’مسائل‘ پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ تاہم اگر اس وقت فیک نیوز کے منظر نامہ میں میجر جنرل آصف غفور کے بیان کو دیکھا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔

کہاں امریکی صدر روزانہ کی بنیاد پر اپنے قومی میڈیا پر لعن طعن کرتا رہتا ہے اور میڈیا اداروں کے نام لے کر واضح کرتا ہے کہ وہ سب تو جعلی اور جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔ اسی لئے کبھی کسی ایسےمیڈیا کے بد دماغ رپورٹر کو وہائٹ ہاؤس سے نکالا جاتا ہے اور کبھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے اداروں کو انٹرویو نہ دے کر سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر امریکی میڈیا بھی پاکستانی میڈیا کی طرح ’اصلی اور کھری‘ خبریں سامنے لانے کی کوشش کرتا تو اسے فیک نیوز کا الزام سہنے کی بجائے صدر یا شاید امریکی فوج کے کسی نمائندے کی طرف سے ویسا ہی اعزاز نصیب ہو جاتا جو پاکستانی میڈیا کو میجر جنرل آصف غفور نے عطا کیا ہے۔

پاکستانی فوج پر سیاست میں مداخلت کرنے اور میڈیا پر نامعلوم طریقوں سے دباؤ ڈالنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پاکستانی اخبارات اور کالموں میں دبے لفظوں میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ میڈیا کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے ، شاید پاکستان کی تاریخ میں اسے پہلے ایسی گھٹن اور مجبوری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

جنرل ضیا الحق کے دور کو اب تک پاکستانی صحافت کا بدترین دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں صحافیوں اور اخبارات پر نت نئی پابندیاں لگانے کے علاوہ انہیں سر عام کوڑے مارنے کی سزائیں دی گئیں اور متعدد صحافیوں کو عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس وقت بھی نیوز ایڈیٹروں کو یہ ’آزادی ‘ ضرور حاصل تھی کہ اگر کوئی خبر یا مضمون شائع کرنے سے روک دیا جاتا تو اخبار میں اس کی جگہ کو خالی چھوڑا جاتا۔ یعنی سنسر کرنے والوں کا فرض بھی ادا ہوجاتا اور ایڈیٹر اور صحافی بھی اپنے طور پر ضمیر اور قاری کے سامنے سرخرو رہتے کہ انہوں نے بات کہنے یا خبر بتانے کی کوشش کی لیکن ’قانون‘ کے آہنی ہاتھ ان کے راستے کی دیوار بن گئے۔

 نہ صحافی کو سنسر شپ اور کنٹرول کے بارے میں شور مچا کر بتانا پڑتا تھا اور نہ ہی حکمرانوں کو یہ زحمت ہوتی کہ وہ اس بات پر پریشان ہوں کہ ناپسندیدہ خبریں اور تبصرے عوام کی رائے خراب کرنے کے لئے عام کئے جارہے ہیں۔ گویا میڈیا پر سختی کے بدترین دور میں بھی اتنی دیانت داری ضرور موجود تھی کہ نہ سنسر کرنے والوں کو چھپنے کی ضرورت محسوس ہوتی اور نہ صحافی اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا کہ وہ بے بس اور سنسر شپ کے آگے مجبور ہے۔ جہاں سرکار کا حکم ہو ، وہاں اس کا بس نہیں چلتا۔ جن چند لوگوں نے اس حد کو پار کرنے کی کوشش کی، ضیا کی بے نور و بے بصیرت حکومت نے انہیں عبرت کا نمونہ بنانے میں بھی کوئی شرم اور خوف محسوس نہیں کیا۔

تاہم جیسا کہ آئی ایس پی آر کےسربراہ نے واضح کیا ہے کہ اب تو پاکستان کا میڈیا پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔ چاہے وہ کسی کی پگڑی اچھالے، جھوٹی کہانیوں اور جعلی باتوں سے پروگراموں کا پیٹ بھرے یا اس کے تبصرے حقیقت حال سے نظریں چرا کر آلو ٹماٹر کی قیمت اور سیاست دانوں کی رنگین راتوں اور خاص کر ان کی چور بازاری کے قصے عام کرتے پھریں ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ میاں منہ میں کے دانت ہیں۔ لیکن جوں ہی کسی کا قلم گستاخ ہؤا یا اس کا رخ گندی نالیوں ، ٹریفک کے حادثوں اور افق پر چھائی سموگ پر رائے سازی کی بجائے ایسے اہم قومی معاملات میں غیر معمولی جولانی دکھانے پر آمادہ ہؤا جنہیں بڑی احتیاط سے قومی مفاد کے حسین و دلکش لبادے میں محفوظ کردیاگیا ہے تو ایڈیٹر تک بات پہنچنے سے پہلے ہی متعلقہ شعبہ میں کام کرنے والا صحافی دھیمی مسکراہٹ سے کالم نگار یا تجزیہ کار کو بتانے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتا کہ ’ آپ کے گراں مایہ خیالات ‘ قابل اشاعت نہیں ہیں۔ اب اس پیغام کے بعد چوں و چرا اور بحث ومباحثہ کے سارے امکانات معدو م ہیں۔

مدیران کے جامے میں ملبوس مالکان نے نیشنل سیکورٹی اور قومی امور کو دیکھنے والے حکام کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ہونے والی ملاقاتوں میں قومی مفاد کی حدود و قیود کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے ، اسے ’سیلف سنسر شپ‘ کا حسین نام دے لیا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں آزادی رائے نہیں ہے۔ آپ جو چاہے کہیں ، لکھیں یا فرمائیں لیکن یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کوئی اخبار اسے شائع کرنے اور کوئی ٹیلی ویژن ان ’لغویات‘ کو نشر کرنے کا پابند ہے۔ آخر ادارتی اختیار و استحقاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ اپنا آزادی سے بات کہنے کا شوق پورا کریں ۔ ایڈیٹر اور اس کے کارندے بھی اتنی ہی آزادی سے اپنا حق و اختیار استعمال کرنے میں آزاد و خود مختار ہیں۔ معاملہ سیدھا اور آسان ہے ۔ اگر بعض لوگوں کو یہ آسان سی بات سمجھ میں نہیں آتی تو اس سے میڈیا کی آزادی تو متاثر نہیں ہوتی۔ آپ اپنی رائے اپنے پاس محفوظ رکھیں ، میڈیا پوری آزادی سے کام کرتے ہوئے دنیا میں نمبر ون بن چکا ہے ۔

آہنی ہاتھوں نے اب ریشمی غلاف پہن لئے ہیں۔ جو بات تیس برس پہلے کہنے میں عار محسوس نہیں کی جاتی تھی کہ ’ہاں حکومت بعض خبروں اور آرا کو قومی مفاد کے برعکس سمجھتے ہوئے شائع ہونے کی اجازت نہیں دیتی‘۔ اب اسے کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ملکی میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور اس حیثیت میں مدیر بننےوالوں نے قومی ذمہ داری کو خود ہی سمجھنا شروع کردیا ہے۔ ادارے تو جس طرح ملک میں جمہوریت کی پرورش کرنے میں مگن ہیں، اسی لگن سے صحافت کی آزادی کو یقینی بنانے کی تگ و دو بھی کرتے ہیں۔ اب وہ کسی سے نہیں کہتے کہ یہ لکھو اور یہ نہ لکھو۔ وہ بس یہ کرتے ہیں کہ کیبل آپریٹرز کو ان کی ذمہ داری یاد کروا دیتے ہیں یا مالکان کو بتا دیتے ہیں کہ قومی مفاد کی متعین حدود میں رہتے ہوئے کون سے مالی مفادات ان کے منتظر ہوں گے۔ اور اگر انہوں نے کسی بے مقصد آزادی کے لئے اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کی تو نہ اخبار قارئین تک پہنچ پائے گا اور نہ ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھنے والوں کی دسترس میں ہوں گی۔ اس میں حکومت یا ادارے کیا کر سکتے ہیں۔ اس وقت قومی یک جہتی کا زمانہ ہے۔ ہاکر سے کیبل آپریٹرز تک اس قومی یک جہتی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت سے آگاہ ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے بھی تازہ ٹی وی انٹرویو میں اسی صورت حال کو اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان کا میڈیا مکمل طور سے آزاد ہے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ میڈیا اب ذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹنگ کا فرض ادا کرتا ہے‘۔ جس میڈیا کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان کی شہادت حاصل ہورہی ہو ، اس کی آزادی اور خود مختاری کے بارے میں شبہ کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے۔ اسی لئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ ’پاکستانی میڈیا پر پابندی کی باتیں بیرون ملک سے ہی آتی ہیں ۔ ملک میں تو اس کا کوئی گلہ نہیں کرتا‘۔

ملک سے کوئی آواز اٹھنے کے تمام امکانات میجر جنرل صاحب کے ان ارشادات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں جب وہ راست گو میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ ’میڈیا اداروں کا فرض ہے کہ وہ ملک میں رونما ہونے والی مثبت باتوں کو بیان کرے۔ اسی طرح سوشل میڈٖیا کے پلیٹ فارم کو ملکی مفادات کے خلاف استعمال نہ کیا جائے‘۔ ان واضح ہدایات یا مشورہ کی روشنی میں جب ملک کا میڈیا قومی مفادات کے تحفظ اور ملکی مفادات کی ترویج کے لئے کام کرتا ہے تو اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے والے ضرور یا تو قومی مفاد کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا وہ اسے رد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

فوج کے ترجمان نے میڈیا کو آزادی سے کام کرنے اور دنیا میں نمبر ون ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کا آسان پرچہ ترکیب استعمال فراہم کیا ہے۔ جن لوگوں کو اس نسخہ پر اعتراضات ہیں اور بہر صورت خرابی کی کوئی تصویر دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں تو موجودہ حالات میں تو انہیں یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کا معائنہ کروا لیں کہ کہیں اس میں تو کوئی نقص واقع نہ ہوگیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali