اس شعبے میں نہ آنا باقی جہاں مرضی چلے جاؤ


گزشتہ ماہ جب ہم میو ہسپتال کے شعبہ حادثات میں ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ اچانک دو نو جوان کیمرہ اور مائک کے ساتھ وارد ہوئے۔ انھوں نے جلدی سے کیمرے کی ترتیب لگائی اور رپورٹنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ تقریبا رات آٹھ بجے کا وقت تھا کچھ دیر وہ وہاں کھڑے رہے اور پھر کچھ کیے بغیر سامان بند کرنے لگے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ مقامی چینل کی ایک رپورٹ کے حصول کی خاطر آئے تھے جو کہ آج نہیں دکھائی گئی۔ میں ان سے مخاطب ہوا اور پوچھا آپ اس شعبہ سے کب سے وابستہ ہیں کہنے لگے پچھلے دو سال سے میں نے کہ ہم بھی صحافت کے طالب علم ہیں اور اسی شعبہ میں آنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کے چہروں پر ایک عجیب اور طنزیہ مسکراہت دیکھی اور پھر وہ کہنے لگے بھائی اگر ہماری مانو تو اس شعبے میں نہ آنا باقی جہاں مرضی چلے جاؤ۔

اس طرح دو برس پہلے جب میں چونڈہ میں مقیم تھا کہ فوجی دستے مشقوں کے لیے نکلے اور انھوں نے کئی جگہ کیمپ لگائے۔ ہر بندہ ان کو بڑے شوق سے دیکھنے جاتا ہم بھی دستوں کے ساتھ نکل پڑے۔ پہلے پہل تو ہم نے ٹینکوں کا معائنہ کیا پھر ہماری سپاہیوں سے گپ شپ ہونے لگی۔ ہم میں سے کئی طلبہ نے کہ ہم بھی فوج میں آنا چاہتے ہیں تو سپاہیوں نے بھی میو ہسپتال والے نوجوانوں جیسا مشورہ دیا۔

اسی طرح جب کبھی میں مقامی بینک میں جاوں تو اس کے ملازم بھی مجھے اسی طرح کے مشورے سے نوازتے ہیں کہ بینکنگ میں نہ آنا باقی جہاں مرضی چلے جاؤ۔

جب ہم اپنے گردونواح میں نظر دہراتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی کئی مثالیں نظر آتی ہیں کہ کہ ہر بندہ اپنے آپ سے مطمئن نہیں وہ اپنے دوسرے کو اپنے آپ پر ترجیح دیتا ہے۔ ان مثالوں سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں

کیا ہر شعبے کے نچلے درجے کے ملازم اس سے ناخوش ہیں؟
کیا بنی نوع انسان کو ہمیشہ اپنے سے بہتر دوسرے نظر آتے ہیں؟

یا ہم لوگ احساس کمتری کی چکی میں پس رہے ہیں جو ہمیں ترقی کی راہ پر چلنے نہیں دیتی؟
یا ہماری مرضی کے خلاف ہمیں ان شعبہ جات میں دھکیل دیا جاتا ہے!

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا!
کیا ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم اپنے آپ کو سمجھ سکیں اور اس کے عین مطابق اپنا پیشہ اختیار کر سکیں! جب تک ہم اس فہم کی عدم تکمیل کو لیے پھرتے رہیں گے اس وقت تک ایسے سوالات ہمارے شانہ بشانہ رہیں گے۔

ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہو گا۔ جس میں ہر فرد اپنے آپ میں چھپی خوبیوں کو اجاگر کر کے کسی شعبہ میں نام پیدا کر سکے۔ اس طرح ہر فرد اپنی اہمیت اور قابلیت کو جانتے ہوئے معاشرے کی تکمیل اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے کردار ادا کر سکے گا
زرا سا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).