’اب اور نہیں‘ کے نام سے ٹوئٹر پر نئی مہم
#AbAurNahin (اب اور نہیں)۔ ٹوئٹر پر ایک نئی مہم کا آغاز ہوا ہے اور جیساکہ نام سے ظاہر ہے اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سدباب کرنا یا ان کے بارے میں معاشرے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔
اسی مسئلہ پر بحث میں بہت سے خواتین اور کچھ مرد حضرات بھی اپنے خیالات، تجربات، مشاہدات اور سوچ کا اظہار کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیے:
یونیورسٹیوں میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ
خیبر ٹیچنگ ہسپتال: نرس کو ہراساں کرنے پر ڈاکٹر برخاست
ڈیجیٹل رائٹس گروپ خواتین کے مسائل اور حقوق کی وکالت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے جس نے اس مہم کو شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں مسلسل کئی ٹوئٹس کی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ‘ہراساں کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اور اس کو مختلف گروہ مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ہر روز مختلف جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات پیش آتے ہیں جس سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے جس میں اس کی صحت اور خوش و خرم زندگی بھی شامل ہے۔
بہت سی سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین اس مہم کی زور شور سے حمایت کررہی ہیں۔
ایک ٹوئٹر صارف سیرت خان لکھتی ہیں کہ محفوظ اور غیر متعصبانہ ماحول خواتین کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ‘آن لائن اور آف لائن سپیس’ دونوں میں بہت ضروری ہے۔
https://twitter.com/sfarrukhsh
انھوں نے کہا کہ ایک حساس ماحول اور جس کا آغاز گھر کے اندر سے ہونا چاہیے انتہائی اہم ہے۔ قانون کا اطلاق ہونا چاہیے اس جانب پہلا قدم خواتین کے خلاف جرائم سے اٹھایا جانا چاہیے۔
ایک اور صارف سدرا کے خیال میں معاشرے میں بہت سے لوگ تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہی نہیں۔
اس سوال پر کہ آخر ہراساں کیا جانا ہوتا کیا ہے ؟ سیرت نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں ہر وہ عمل جس سے وہ کوفت کا شکار ہوں، بے چینی یا پریشانی محسوس کریں اور جس پر انھیں انکار کرنا پڑے اور کوئی دوسرا وہی کچھ کرنے پر اصرار کرتا رہے میرے خیال میں ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتا ہے۔
ڈجیٹل رائٹس گروپ کی طرف سے پوچھے گئِے ایک اور سوال پر ثنا فرخ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ سے کوئی کہے کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے اس پر شک نہ کریں، اس کی بات سنیں اور اس کی مدد کرنے پر آمادہ رہیں اگر وہ اپنا دکھ بانٹنا چاہیں اور ان کے نجی معاملات کا احترام کریں۔
https://twitter.com/tehreemazeem
ایک اور صارف ثنا نے لکھا ہے کہ ہراساں صرف جنس کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ کوئی لڑکی بھی کسی لڑکی کو ہراساں کر سکتی ہے اور کوئی لڑکا بھی کسی لڑکے کے ہاتھوں ہراساں ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار لوگ کسی دوسرے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں اس پر الزام لگا کر یا اسے ہراساں کر کے۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔
تحریم عظیم اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا مردوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ ان کا کونسا فعل اور کونسا عمل کسی دوسرے کو ہراساں کر سکتا ہے۔ اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہراساں کرنے والوں کو روکنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
- ’موت کا جزیرہ‘: اینتھریکس کے وہ خفیہ تجربے جن کے لیے برطانوی فوج نے سائنسدانوں کی مدد حاصل کی - 24/04/2024
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).