فلسفہ غیر ضروری ہے


1975  کی بات ہے۔ الفلاح میں پاکستان نیشنل سنٹر میں چائلڈ سائکالوجی پر ایک سیمینار تھا جس کی صدارت اس وقت کے وفاقی سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر محمد اجمل صاحب فرما رہے تھے۔ ہم کچھ دوست بھی ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے وہاں جا حاضر ہوئے۔ اپنے خطبہ صدارت میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ وہ نفسیات کی افادیت کے متعلق شک میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ ایک امریکی وفد چین کے دورے پر گیا تو انھوں نے وہاں کی یونیورسٹی میں نفسیات کے شعبے کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چینیوں نے بتایا کہ چین میں تو نفسیات کا مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ چینی شاید اس لیے نفسیات نہیں پڑھاتے تھے کہ وہاں عظیم مفکر اور انقلابی لیڈر ماوزے تنگ نے ایک مثالی معاشرہ قائم کر دیا تھا اور مثالی معاشرے میں ظاہر ہے لوگ نفسیاتی مسائل سے دو چار نہیں ہوتے۔

برسوں پرانا یہ واقعہ یاد آنے کا سبب ان دنوں پنجاب حکومت کا ایک اقدام ہے۔ پنجاب میں کالجوں کے اساتذہ کی ہزاروں اسامیاں مشتہر کی گئی ہیں، لیکن ان میں ایک بھی اسامی فلسفے کی نہیں ہے جس پر فلسفے کی ڈگری رکھنے والے اعتراض کر رہے ہیں۔ میں نے ساری عمر فلسفے کی روٹی کھائی ہے اس لیے میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں فلسفے سے اس عدم رغبتی کو تنقید کا نشانہ بناؤں لیکن کیا کروں کہ میں بھی ڈاکٹر اجمل صاحب کی طرح فلسفے کی افادیت کے بارے میں شکوک کا شکار ہو چکا ہوں۔

پاکستان میں بھی ایک مثالی حکومت قائم ہو چکی ہے جو بہت جلد اس ملک کو جنت نشان بنا دے گی۔ ظاہر ہے جب لوگ جنت میں چین اور آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے تو ان کے ذہن میں نہ کوئی سوال پیدا ہو گا، نہ وہ شک کے مرض میں مبتلا ہوں گے۔ اس لیے ایسے معاشرے میں فلسفہ جیسے غیر افادی بلکہ خطرناک مضمون کو پڑھانے کا کوئی جواز نہیں۔ فلسفی مسلمات اور اساسات پر سوال اٹھانے کی عادت بد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ فی زمانہ ہمیں مثبت سوچ کی ضرورت ہے لیکن فلسفہ تخریبی سوچ کو ترغیب دیتا ہے۔ معاشرے صدیوں سے جاری و ساری روایت پر مضبوطی سے عمل کرنے سے مستحکم ہوتے ہیں لیکن فلسفی غرور عقل میں مبتلا ہو کر ان بنیادوں کو ہی چیلنج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

سبھی جانتے ہیں کہ برصغیر میں انگریزوں نے اپنے سامراجی مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر ہندووں اور مسلمانوں کے صدیوں سے رائج کامیاب و کامران نظام ہائے تعلیم کو برباد کرکے میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کو رائج کیا۔ محب وطن دانش وران ملت بتاتے ہیں کہ انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا۔ صنعت و حرفت عروج پر تھی۔ گلیوں بازاروں میں سونے چاندی کے ڈھیر لگے ہوتے تھے۔ پنجاب میں شرح خواندگی 80 فی صد سے زیادہ تھی۔ عام دیہاتی بھی فرفر فارسی بولتا تھا۔ لیکن جب میکالے کی وضع کردہ تعلیمی پالیسی کے تحت جدید تعلیمی ادارے قائم کیے گئے تو برصغیر جہالت کےا ندھیروں میں ڈوب گیا۔ ہماری شرح خواندگی بیس فی صد تک آ گئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے، معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا۔

پنجاب میں سب سے پہلے لاہور میں 1864 میں گورنمنٹ کالج لاہور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1868 میں فلسفے کا شعبہ قائم کر دیا گیا۔ اس شعبے کے قیام کا مقصد مسلمانوں اور ہندووں کو اپنے شاندار ماضی سے بدظن کرنا تھا۔ ان شعبوں نے ایسے افراد پیدا کیے جو اپنے ماضی پر شرمندہ شرمندہ پھرتے تھے۔ ان کے دماغ فرنگی رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔

یہاں میں ایک تاریخی بدقسمتی کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ حادثہ یہ ہوا کہ مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال نے فلسفے میں ایم اے کیا اور بعد ازاں کیمبرج میں بھی فلسفے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اب علامہ اقبال پر تو اللہ کی خاص رحمت کا سایہ تھا۔ اس لیے یورپ کی نظروں کو خیرہ کرنے والی ترقی نے انھیں مرعوب کرنے کے بجائے الٹا مسلمان بنا دیا۔ علامہ اقبال کی ایک بہت مشہور نظم ہے: فلسفہ زدہ سید زادے کے نام۔ روایت کے مطابق یہ فلسفہ زدہ سید زادہ پطرس بخاری تھا۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے بتایا ہے کہ فلسفہ زندگی سے دوری پیدا کرتا ہے اور مسلمانوں، بالخصوص سید زادوں، کے لیے بالکل ناموزوں اور غیر ضروری ہے۔ وہ خود اس لیے فلسفے کی طرف مائل ہو گئے تھے کہ ان کی کف خاک برہمن زاد تھی ورنہ مسلمان کا فلسفے سے کیا لینا دینا، اس کا کام تو بس تلوار چلانا ہے۔

پاکستان میں فلسفے والوں نے اس حادثے کو اپنے وجود کا جواز بنا لیا ہے۔ کوئی بیس پچیس برس قبل اس وقت کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے فلسفے کا شعبہ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ اپنے فیصلے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ اس وقت کے صدر شعبہ فلسفہ پروفیسر شاہد حسین مرحوم نے سیکریٹری تعلیم سے ملاقات کی اور اسے فلسفہ کی افادیت پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جب یہ حوالہ دیا کہ علامہ اقبال نے بھی اسی شعبے سے ایم اے کیا تھا اور یہاں پڑھاتے بھی رہے تھے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بہت خفا ہوئے اور کہا کہ ہم جب کبھی اس غیر مفید شعبے کو بند کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ لوگ علامہ اقبال کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر میں تو یہ کہوں گا کہ فلسفہ تو درکنار ہمیں جدید تعلیم ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں مغرب زدہ طبقے کی باتوں سے مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم جدید تعلیم کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ ڈیڑھ صدی سے جاری اس جدید تعلیم نے آخر ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ نہ ہماری معیشت بہتر ہوئی نہ معاشرت میں تبدیلی آئی۔ مسلمانوں کی ترقی آگے بڑھنے میں نہیں، بلکہ ماضی کی طرف رجعت کرنے میں ہے، جیسا کہ علامہ شبلی نے بتایا تھا لیکن ہم شبلی کی بات سننے کے بجائے سرسید کے پیچھے چل پڑے۔ چنانچہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔

مغرب پر اگر غلبہ حاصل کیا ہے تو وہ روایتی مدارس نے کیا ہے۔ دیکھ لیجیے طالبان نے پہلے روس جیسی سپر پاور کو شکست سے دو چار کیا اور اب امریکہ بھی خاک چاٹ کر افغانستان سے بوریا بستر باندھ رہا ہے۔ ہمارے لیے بھی ترقی کی راہ افغانستان سے ہو کر گزرتی ہے۔ اگر تمام جدید تعلیمی اداروں کو بند کرکے پورے ملک میں مدارس کا جال بچھا دیا جائے تو ہماری ترقی کی عمارت تا بہ ثریا درست ہو جائے گی۔

ہے کوئی آج مری بات سمجھنے والا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).