سرخ فام امریکی نسل پر تاریخ کے جبر کا نوحہ


امریکہ کے سرخ فام باشندے جنہیں ریڈ انڈین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک زمانے میں یہاں کی تاریخ کے جور بھاٹے میں وقت کی چڑھتی ہوئی لہر تھے۔ اگر کسی نے تاریخ کے آئینے میں تقدیر کی ستم ظریفی کو دیکھنا ہو تو ریڈ انڈین قبائل کی جانب نظر کرے۔ دیواروں کے بیچ منہ نظر آئیں گے۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ کے ایک راکٹ نے خلائے بسیط میں چار بلین میل کے فاصلے پر جو آج تک کی انسانی تاریخ کی پہنچ میں دور ترین مقام ہے، وہاں ایک بیس میل لمبی چوڑی چٹان کے ساتھ آشنائی حاصل کر لی ہے۔ خیال ہے کہ یہ چٹان کائنات کی تخلیق کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ بلاشبہ یہ انسانی سائنس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج 2019 کا دوسرا دن ہے اور بجا کہ سب چڑھتے ہوئے سورج کی ضیا کی باتیں کر رہے ہیں مگر میرے دل میں دکھ آج سوا ہے۔ ”میں ذرا ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کر لوں“۔ ریڈ انڈین اقوام انسان کی تاریخ کے ڈوبتے ہوئے تارے ہیں۔

تاریخ کو ساری دنیا سالوں اور صدیوں کے پیمانوں سے ناپتی ہے جس میں ملک، قومیں، واقعات اور مذاہب ترتیب پاتے ہیں۔ ریڈ انڈین شعور کے لئے یہ ایک لایعنی سا اظہار ہے۔ ریڈ انڈین شعور میں زمین، ہوا، چرند پرند، اڑتی خوشبو اور بہتا پانی سب کے اندر ایک روح ہے جسے زوال نہیں، اس لئے اسے سالوں اور صدیوں میں کیوں کر محیط کیا جا سکتا ہے۔

چیروکی قبیلے کی زبان میں ایک لفظ ”عیلوحے Eloheh“ ہے۔ اس کا ترجمہ شاید ہی دنیا کی کسی اور زبان میں ممکن ہو۔ وہ ساری باتیں، خیالات اور نظریات جن کے لئے ہم زمین، تاریخ اور کلچر جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، چیروکی زبان میں ان سب کے لئے عیلوحے کا لفظ ہی کافی ہے۔ جو زمان و مکاں اور اس کے اندر کے وجود کی یکتائی کی علامت ہے۔

امریکہ میں یورپی قوموں کی آمد کے بعد تمام مقامی سرخ فام قبائل کی طرح چیروکی قبیلے پر بھی قیامتیں ٹوٹیں۔ وہ تفاصیل علیحدہ ہیں۔ باقی قبائل کی طرح چیروکی قبیلے کا اصل سانحہ یہ ہے کہ انہیں اپنی زندگی اور روح کی یکتائی سے ہاتھ دھونے پڑے اور ان کی حاجت روائی کا کوئی طریقہ میسر نہیں۔ اس سانحے کی وضاحت کے لئے چیروکی بزرگ ”کارن ٹیسل“ کا 1785 کا ایک مکالمہ حوالے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ کے ظلم نے انہیں خستگی اور شکستگی کے اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں انہیں تقابلی جائزے کے لئے وہ باتیں کہنی پڑیں جو ان کی سوچ کا بنیادی حصہ نہیں تھیں۔ لاچار ان کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے :

”تم کہتے ہو کہ انڈین بھی ہماری طرح زمین کو کاشت کیوں نہیں کرتے اور ہماری طرح سے زندگی کیوں نہیں گزارتے؟ مگر کیا ہمیں یہ پوچھنے کی اجازت ہے کہ سفید فام بھی ہماری طرح سے شکار کیوں نہیں کرتے اور ہمارے جیسا رہن سہن اختیا ر کیوں نہیں کرتے۔ خدائے برتر نے تو ہر ایک کو زمین عطا کر دی تھی۔ جس میں تمیارے لئے سور اور ہمارے لئے ریچھ رکھا۔ تمہارے لئے بھیڑ اور ہمارے لئے ہرن۔ اس نے تمہارے ساتھ بھی مہربانی کی کہ تمہارے جانور سدہائے جانے والے اور گھریلو طرز کے رکھے مگر ہمارے جانور ہماری روح کی طرح آزاد، وحشی اور جنگلی۔ ہمارے جانوروں کی طبعی ضرورت ہے کہ ان کے پاس حد نگاہ تک کھلی زمین ہو۔ زمین کی فراوانی ہمیں اور ہمارے جانوروں کو اس لئے چاہیے تا کہ ان کے شکار میں فن جیسی لطافت ہو“۔

جب انڈین شعور اور لاشعور میں زندگی کے احساس اور زندگی کے گرد بنے ہوئے کلچر میں لطافت کا احساس اس نوع کا ہے تو ان کے لئے مذہب جیسے لفظ بیکار ہو جاتے ہیں۔ مذہب وہ لگا بندھا نظام ہے جس کے اندر روح کے احساس کی بجائے ضابطہ اخلاق کا انتظام ہے۔ مقامی سرخ فام لوگوں کا نظام فکر ذرا مختلف ہے۔ ان کی روحانیات میں روزمرہ زندگی، تقدیس اور سیکولر کے تانے بانے میں کسی قسم کی تفریق نہیں۔

یہ احساس تمام ریڈ انڈین قبائل میں موجود ہے کہ روحانی طاقت یا ”میڈیسن“۔ ہر چیز کے اندر موجود ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے ان کے نزدیک زمین، چاند تارے اور مظاہر فطرت میں کسی قسم کی دوئی نہیں۔ زمین کی گردش، سورج کا طلوع و غروب اور موسموں کا بدلنا یہ سب زندگی کی علامات ہی تو ہیں۔ اور زندگی جو ایک ہی تو ہے۔ سرخ فام انڈین قبائل کی یہ اساطیری فکر کچھ نہیں تو 15000 ہزار سال پرانی ہے۔

ہمارے نئے مذاہب، خاص کر مشرق وسطیٰ کے مذاہب سرخ فام امریکیوں کے احساس فکر سے بہت مختلف ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے مذاہب میں زمان و مکاں کے اوپر مگر ان سے علیحدہ ایک خدا کا تصور ہے جو زندگی کا خالق اور وارث ہے۔ سرخ فام احساس فکر وہ فلسفہ ہے جس میں زمین میں پائی جانے والی تمام اشیاء میں زندگی کا ادراک ہے۔ یہ Hylozoism کا فلسفہ کہلاتا ہے۔ اس کا تصور واحدۃ الوجود کی شکل میں ہندوستان میں بھی ہے۔ ہندوستان میں یہ فلسفہ اپنے اندر وہاں کے مرغزاروں میں پروان چڑھنے والے رگ ویدا کے گیتوں کی کیفیت میں ہے جن میں فطرت کے مظاہر کی حمد و ثنا ہے اور یہی سوچ اپانشد کی آیات مقدسہ میں بھی موجود ہے۔

سرخ فام انڈین کے شعور اور لاشعور میں رچا بسا یہ فلسفہ جسے اصل میں طرز احساس کہیے، اس کی بنیادیں زمانے کی دھند میں کہیں بہت دور ان کے اساطیر میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ان کی سوچ کے سبھی زاویے اور سبھی فلسفے فطرت کی گہرائی میں جا ضم ہوتے ہیں جہاں مکاں ایک کیفیت کا نام ہے۔ اس کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کی کوئی انتہا۔ یہ کیفیت وقت کی لہروں کی طرح موجود بھی ہے اور غائب بھی، جیسے لیکوٹا قبیلے کی ایک کہاوت کے ہے۔ یہ بفلو کی چراگاہوں پر ہوا کا جھونکا ہے۔

سرخ فام امریکہ میں کہاں سے آئے؟ اس کی سائنس کسی اور دن سہی۔ مگر ہر سرخ فام قبیلے اور گروہ کا اپنا علیحدہ اسطوری حوالہ ہے۔ مثال کے طور پہ امریکہ کے درمیانی علاقوں میں بسنے والے اس بے پایاں غار کو مقدس مانتے ہیں جو ریاست کولو ریڈو میں واقع ہے اور عبادت کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ اس کو ”کیوا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب کہ جھیل میشگن اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے قبائل میں تخلیق کا اسطورہ مقدس ریچھ سے عبارت ہے جو سمندروں پر سفر کرتا ہوا ساحل پر پہنچا تھا۔ ساحل سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک بڑے کوے کی شکل اختیار کر لی۔ اس کے بعد اس نے پانچ قبیلوں کو اکٹھا کر کے انہیں وعظ فرمایا تھا۔

مگر وقت کے بے پایاں سیلاب میں گھاس پر ہوا کے جس جھونکے کی بات ابھی ہوئی تھی وہ سرخ فام نسل کو پچھلے چار سو سالوں میں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا ہے۔ اس شکست میں حادثہ تقدیر کے علاوہ پورپ کا مسیحی تفاخر بھی شامل تھا جو ان نئے آنے والے سفید فام سورماؤں کے اپنے اساطیر میں گندھا ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کی فلاح اور نجات کا ضامن سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دنیا کو سیدھی راہ دکھانے پر معمور ہوئے تھے۔

پورپ کی زمینی وسعت پسندی کے لالچ کے اوپر ان کے مذہبی اسطورہ کا لبادہ تھا جس نے ان کے تشدد آمیز رویوں کو بھی نیکو کاری کی سند عطا کر دی تھی اور ان کے ضمیر کی ملامت اگر کوئی تھی تو اسے آخرت کی جزا میں جنت سے جوڑ دیا تھا۔ اس مقام پر مجھے اس زمانے کے ایک پادری اور ایک بوڑھے سرخ فام کی گفتگو یاد آئی۔ پادری نے اس کے سامنے جنت کا بے پناہ خوبصورت نقشہ پیش کیا جسے سننے کے بعد وہ سادہ لوح سرخ فام آدمی حیرت سے کہنے لگا، مگر ایسی جنت کا کیا کرنا جس میں ہرن اور کیریبو موجود نہ ہوں۔

1492 میں امریکہ کی دریافت کے بعد سفید فام یورپی جوق در جوق یہاں آئے اور آتے چلے گئے اور حد بندیوں کے بغیر کھلی زمین کو دیکھ کر جہاں چاہا رہنے اور بسنے لگے۔ سرخ فام جو یہاں قریبا پندرہ ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، ان کے اپنے اپنے علاقے تھے۔ وہ موسموں کے ساتھ ساتھ اپنی بستیاں اٹھائے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک رواں دواں رہتے مگر ان کے ذہنی کلچر کے اندر زمین پر تسلط کا خیال تک نہیں تھا۔ ان کی زندگی ہمیشہ سے بس اسی طرح چلی آ رہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2