آصف زرداری سے ٹرین چھوٹ چکی


صرف چار ماہ قبل اگست 2018ء کی بات ہے۔ ملک میں صدارتی انتخاب کے لیے جوڑ توڑ عروج پہ تھا، ترپ کا پتا پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ سب پہ بھاری کے نعرے پہ خوش ہونے والے آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھا جو سینیٹ الیکشن میں جوڑ توڑ کے ذریعے مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کے بعد اتنے پر اعتماد ہو چکے تھے کہ اپنے دیرینہ دوست مولانا فضل الرحمٰن کی بات سننے کے بھی روادار نہ تھے۔ سینیٹ الیکشن سے قبل بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی تبدیلی کے ذریعے صدارتی انتخابات تک آصف علی زرداری ہر وہ حکم بجا لانے میں پیش پیش تھے جس کے ذریعے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگایا جا سکتا تھا کیوں کہ انہیں خوش فہمی یا غلط فہمی تھی کہ ہر حکم پہ کورنش بجا لانے کے بعد ان کی باری کبھی نہیں آئے گی، وہ تب بھی سراب سے باہرآنے کو تیار نہ ہوئے جب سینیٹ الیکشن کے بعد عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی کو دینے کی بجائے تحریک انصاف میں تقسیم کر دی گئیں۔ وہ اس پہ ہی بغلیں بجا رہے تھے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ ن زیر عتاب ہے جب کہ ان کے خلاف چوں کہ نیب کے اکثر مقدمات عدالتوں سے خارج ہو چکے ہیں اور مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں بنائے گئے نئے مقدمات کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔

صرف چار ماہ صدارتی انتخابات کے دوران ہی جب مولانا فضل الرحمن نے انہیں اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہونے اور متفقہ صدارتی امیدوار نام زد کرنے کے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،یہاں تک کہ نواز شریف کی طرف سے میاں رضا ربانی کو صدارتی امیدوار نام زد کرنے کی پیش کش بھی کی تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنما میاں رضا ربانی کی شان میں بھی ایسے الفاظ ادا کرنے سے اجتناب نہ کیا جنہیں کوئی حریف کے بارے میں بھی کہنے سے قبل ایک بار ضرور سوچے۔ تب جناب آصف زرداری کو اپنی سیاسی چالوں اور سیاسی بصیرت پہ اس قدر گمان تھا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ مولانا صاحب میاں صاحب تو طاقت وروں سے لڑائی مول لے کر پھنسے ہوئے ہیں تو میں ان کے ساتھ کھڑے ہو کر خود کو مشکل میں کیوں ڈالوں، مجھ میں اب اس عمر میں پیشیاں بھگتنے اور جیل یاترا کرنے کی ہمت نہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے آصف زرداری سے ملاقات کا یہی احوال نواز شریف کے گوش گزار دیا جس کے بعد میاں صاحب نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نام زد کر دیا اور یوں آصف زرداری نے سینیٹ الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کا راستہ روکتے ہوئے ایک بار پھر تحریک انصاف کے لیے اپنا صدر لانے کی راہ ہم وار کر دی۔ جب شریف برادران اور مسلم لیگ نون سے نمٹنے کے بعد راوی چین ہی چین لکھنے لگا تو احتساب کرنے والوں نے جناب آصف زرداری کا نمبر لگا دیا، جب عدالتی حکم پہ پیپلز پارٹی کے سخت مخالف گردانے جانے والے افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو پہلی بار آصف زرداری کا ماتھا ٹھنکا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، ان سے جو خدمات لینی تھیں وہ لی جا چکی تھیں اور اب ان کی حیثیت شطرنج کی چال میں اس پیادے سے زیادہ نہیں تھی جسے حریف کو مات دینے کیلئے قربان کرنا پڑتا ہے۔

سب پہ بھاری ہونے کے دعوے دار کے گرد اس بار عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ایسے گھیرا تنگ کیا گیا ہے کہ اب اس عمر میں وہ جن مشکلات سے خود کو بچانا چاہ رہے تھے وہ ان کا مقدر بنتی نظر آ رہی ہیں۔ اب ان کے ہاتھ میں صرف سندھ کارڈ ہے لیکن اس کارڈ میں بھی بیلنس ختم ہوتا نظرآ رہا ہے؛ جب کہ یہاں پیپلز پارٹی کے لیے سب سے بڑی مشکل بلاول بھٹو کا سیاسی کیرئیر ہے جو شروع ہوتے ہی داغ دار ہو چکا ہے اور ان کے دامن پہ کیچڑ گرانے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے والد محترم ہیں، جن سے اس بار سیاسی چال چلنے میں بری طرح بھول ہوئی ہے۔ جعلی اکائونٹس کیس میں سپریم کورٹ میں پیش کردہ اور میڈیا میں لیک کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں آصف زرداری اور ان کی ہم شِیر فریال تالپور کے ساتھ بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حکومتی اقدام نے ملکی سیاست میں وہ طوفان برپا کر دیا ہے جو جلد تھمتا نظر نہیں آ رہا۔

سینیٹر مشاہد اللہ کے مطابق حالات کا جبر آصف علی زرداری اور نواز شریف کو دوبارہ اکھٹا کر سکتا ہے جس کے اشارے پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان دن بدن کم ہوتے فاصلوں سے بھی بخوبی مل رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اپنی باری آنے پر آصف علی زرداری نے ایک بار پھر مولانا فضل الرحمٰن کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ ماضی کو بھول کر اپوزیشن کے اتحاد کے لیے کردار ادا کریں۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اکھٹا ہونے کے پس پردہ صرف ایک عنصر ہے اور وہ ہے تحریک انصاف کی حکومت کے کندھے پہ رکھ کر بندوق چلانے والوں کے خلاف مشترک مزاحمت کی سوچ۔ اسی لئے مسلم لیگ ن آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دیگر اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ آیندہ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران چائے کی دعوت پہ بلانے کی تجویز پہ غور کر رہی ہے؛ تاہم اس کا انحصار آصف زرداری کو تب تک مہلت ملنے پہ بھی ہے۔

اس وقت اگر پارلیمنٹ سمیت صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے توحکومت کے خلاف اپوزیشن کے متحد ہونے کے باوجود سوائے سینیٹ میں چیئرمین کی تبدیلی کے علاوہ کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اگرچہ تحریک انصاف کو صرف بارہ سے تیرہ نشستوں کی اکثریت حاصل ہے لیکن موجودہ صورت احوال میں ایم کیو ایم پاکستان اور بی این پی مینگل کی گیارہ نشستیں کسی طور اپوزیشن کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہاتھ ملا بھی لیں تو پھر بھی اپوزیشن کی مجموعی نشستیں حکومت سے تقریباََ 21 کم ہیں جو بڑھنے کا کوئی امکان نہیں۔

ادھر سندھ میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کے دعوئوں کے برعکس اپوزیشن پیپلز پارٹی کی تقریباََ 32 نشستوں کی برتری کو کسی طرح ختم نہیں کر سکتی؛ چناں چہ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت کی تبدیلی کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ اس سارے سیاسی منظر نامے میں اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور احتساب کو انتقام قرار دے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی کو بلڈوز کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ جہاں تک پارلیمنٹ سے باہر سڑکوں پہ احتجاج کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن فی الحال آصف زرداری کو بچانے کیے لیے ایسی کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے؛ اس لیے وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اب اپوزیشن بالخصوص آصف زرداری صرف چیخیں مار سکتے ہیں، کیوں کہ بلا شبہ سب پہ بھاری ہونے کے دعوے دار سے اس بار ٹرین چھوٹ چکی ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).