نہ بھائی!ہماری تو قدرت نہیں


سینے میں درد ہوا۔ مولانا محترم کو اسپتال لے جایا گیا۔ اینجو گرافی ہوئی۔ پھر اینجو پلاسٹی ہوئی۔ شریانوں میں سٹنٹ ڈالا گیا۔ الحمدللہ! علاج کارگر رہا۔ شفا اُس ذاتِ پاک نے دی جس کے قبضۂ قدرت میں صحت ہے۔ مگر اس شفا کے لیے وسیلہ کون بنے؟ وہ ماہر امراضِ قلب! جس نے پانچ برس لگا کر ایم بی بی ایس کیا۔ پھر مزید پانچ چھے برس لگا کر دل کے امراض میں تخصص کیا۔ کئی تربیتی مراحل سے گزرا۔ وہ کارڈیک ٹیکنیشن! جنہوں نے سارے پروسیجر کی نگرانی (مانیٹرنگ) کی۔

وہ ریڈیو گرافر! جس نے آپریشن کے دوران مسلسل ایکس رے کی مشینیں چلائیں اور فلورو اسکوپی کا انچارج رہا۔ وہ نرسیں (کم از کم تین) جو اس سارے عمل کے دوران مدد کے لیے موجود رہیں۔ مسلسل مدد کرتی رہیں۔ پھر اس کے بعد بحالی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ریکوری ٹیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ چاق چوبند، مستعد، چوبیس گھنٹے چوکنی نرسیں اشد ضروری ہیں۔ آپریشن کے بعد، فالو اپ آپریشن سے زیادہ نہیں تو کم نازک بھی نہیں۔ مولانا ایک سیلیبرٹی ہیں، چہار دانگِ عالم میں معروف!

لاکھوں کے محبوب! ان کے علاج کی خبر فوراً پھیل گئی۔ ورنہ یہ ماہر امراض قلب، یہ نرسیں، یہ کارڈیک ٹیکنیشن، یہ فلوروسکوپی کا ماہر، یہ ریڈیوگرافر، ریکوری ٹیم کے یہ افراد ہر روز کتنوں ہی کی اینجوگرافی اور اینجو پلاسٹی کرتے ہیں۔ ہر روز کتنوں ہی کی جانیں بچاتے ہیں اور اس فرمانِ الٰہی پر عمل کر رہے ہیں کہ ”جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو تو گویا اس نے زندہ کیا سب انسانوں کو۔ ۔ ۔ “

تو گویا ڈاکٹری کا علم حاصل کرنا، کارڈیک ٹیکنیشن، ریڈیو گرافر بننا، نرس کے طور پر کام کرنا، پھر اسٹنٹ بنانے کے لیے انجینئرنگ کا علم حاصل کرنا، بھی نیکی کا کام ہے اور بے حد لازم بھی! اب اگر یہ سب چارچار مہینے کے لیے کسی مقدس مشن پر چلے جائیں تو مریضوں کا کیا بنے؟ کتنے ہی مریض مر جائیں! یہ دلیل کہ اور بھی تو بہت سے ڈاکٹر، نرسیں، ریڈیو گرافر وغیرہ ہوں گے تو اِس ملک میں آبادی کے لحاظ سے تو عام ڈاکٹر بھی کم ہیں چہ جائیکہ ماہرینِ امراضِ قلب!

پاکستان میں ہر ہزار افراد کے لیے 3.37، جرمنی میں 3.4، آسٹریا میں 3.5 اور چیکوسلواکیہ میں جو کم ترقی یافتہ ہے، ہر ہزار افراد کے لیے 3.5 ڈاکٹرز میسر ہیں۔ ”جس نے ایک انسان کو زندگی بخشی تو گویا اس نے سب انسانوں کو زندہ کیا“ تو کیا ہم اس حکم الٰہی پر عمل پیرا ہیں؟ کس کو معلوم نہیں کہ ہمارے چھوٹے شہروں، قصبوں، قریوں، بستیوں میں لاکھوں کروڑوں انسان اذیت ناک جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں۔ دلوں میں خون پہنچانے والی شریانیں بند ہو رہی ہیں۔

گردے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں، پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہیں۔ سانس لینا دوبھر ہے۔ گرنے والے اور حادثوں میں مجروح ہونے والے زخموں سے سسک رہے ہیں۔ پیپ پڑ رہی ہے۔ دماغ کے امراض عام ہیں۔ نیورو فزیشن شہروں میں بھی خال خال ہیں۔ قصبوں قریوں کا کیا ذکر! کتنے ہی بصارت سے محروم ہو رہے ہیں۔ آپریشن کرنے والے کلینک اور ڈاکٹر ان کی رسائی سے باہر ہیں۔ کان ناک اور گلے کے امراض پھیلتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر کم ہیں، جو ہیں، مہنگے ہیں۔ تو پھر کیا اس امر کی بھی تبلیغ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر بنو۔ ٹیکنیشن بنو۔ ریڈیو گرافر بنو۔ بچیاں نرسیں بنیں۔ کچھ انجینئرنگ کا علم حاصل کریں تا کہ اسٹنٹ بنائیں۔ ایسے اسٹنٹ بنائیں جو عام لوگوں کے لیے مہنگے نہ ہوں۔ تو کیا ہم اس ضمن میں تبلیغ کا فرض سرانجام دے رہے ہیں؟

اگر ہم کالجوں، یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو یہ تاثر دیں کہ یہاں تمہارا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ نکلو! دین کا کام کرو، اگر ہم آئے دن یہ مثال پیش کریں کہ ہم تو ڈاکٹر کی تعلیم چھوڑ کر اس طرف لگ گئے تو کیا ہم ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھیں گے یا ایک ایسی سوسائٹی کی حوصلہ افزائی کریں گے جس میں مبلغ تو ہوں مگر معالج نہ ہوں؟ کیا ہم اس بات کی بھی تبلیغ کر رہے ہیں کہ غریبوں کے لیے فری اسپتال بنواو، ایسے مراکز بناؤ جن میں مستحقین کے لیے مفت ادویات میسر ہوں۔

گاؤں گاؤں جا کر ہیلتھ کیمپ لگاؤ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جب تشکیل ہو اور تبلیغ کرنے والی جماعت ایک بستی میں پہنچے تو اس جماعت میں ایک ڈاکٹر بھی ہو۔ اس جماعت کے پاس چند دوائیں بھی ہوں۔ صبح سے لے کر ظہر تک ڈاکٹر بستی کے نادار لوگوں کا معائنہ کرے۔ انہیں ادویات فراہم کی جائیں۔ تب انہیں یہ کہا جائے کہ ظہر یا عصر یا مغرب کی نماز مسجد میں آ کر پڑھیں۔ کچھ بات چیت ہو گی؟ کیا اس صورت میں لوگوں کی زیادہ تعداد تبلیغ کے مشن کی طرف راغب نہیں ہو گی؟ کیا یہ نیکی کا کام نہیں۔

یہ دلیل کہ یہ کام دوسرے لوگ کر رہے ہیں، واقعاتی طور پر غلط ہے۔ کہیں کہیں، کم کم، ہو رہا ہے۔ بالکل برائے نام! جتنی وسعت تبلیغ کے گروہوں کو حاصل ہے، اگر اس وسعت میں یہ کام بھی سما جائے تو کیا امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّما اَحْیَا النَّاسَ جَمِیعا، کے حکم پر بھی عمل نہیں ہو گا؟ 2001 ء میں یہ کالم نگار ایک ایسے وفاقی محکمے کا سربراہ بنا جس کی کل افرادی قوت ملک بھر میں چودہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔

جس شہر میں سب سے زیادہ دفاتر تھے، وہاں چار پانچ ہزار ملازمین (عورتیں اور مرد دونوں ) تعینات تھے چوں کہ اس محکمے نے حساس اداروں کی ضروریات پورا کرنا تھیں، اس لیے اس کے ملازمین کو آرام پہنچانے کے لیے ریاست نے اس کے اندر ہی، اس شہر میں ایک ڈسپنسری بنائی۔ جہاں دو ڈاکٹر تعینات کیے۔ ایک مرد ڈاکٹر، ایک لیڈی ڈاکٹر، مرد ڈاکٹر نیک محنت کے لیے سال کا بیش تر حصہ تبلیغ پر صرف کرتا۔ چند دن، وہ بھی برائے نام، ڈسپنسری میں ہوتا۔

اس اثنا میں لیڈی ڈاکٹر رِٹائر ہو گئی۔ پھر پتہ نہیں، ڈاکٹر صاحب نے کیا کرشمہ دکھایا کہ سالہا سال کوئی ڈاکٹر تعینات نہ ہوا۔ اس فقیر نے بطور سربراہ چارج لیا تو ڈاکٹر صاحب کو وہاں غالباً سولہ برس ہو چکے تھے۔ ملازمین خاص طور پر ان کے کنبے سخت پریشان تھے کہ طبی امداد بالکل نہیں پہنچ رہی تھی۔ بولتا اس لیے کوئی نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب ”نیکی“ کے کام کے لیے وقف تھے۔ اعتراض کیا جاتا تو ”گناہ“ سر چڑھتا۔ فقیر نے چارج لینے کے کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور عرض گزاری کی کہ ڈسپنسری اس لیے بنی تھی کہ ہر وقت ڈاکٹر میسر ہوتا کہ ملازمین دل جمعی کے ساتھ حساس اداروں کا مالیاتی نظام چلا سکیں۔

مگر آپ تو موجود ہی نہیں ہوتے۔ انہوں نے فرمایا میں اپنا مشن نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر تجویز پیش کی کہ آپ کو کہیں اور بھجوا دیا جائے اور یہاں کوئی ”کم نیک“ ڈاکٹر آئے تا کہ علاج معالج کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کا فقرہ آج بھی سماعت پر نقش ہے۔ سربراہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے ہوئے کہا ”کوشش کر دیکھیں! مجھے کوئی نہیں نکال سکتا! “

حاضری کے رجسٹر کا معائنہ کیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ”محنت“ سے واپس آ کر اکثر و بیش تر اپنی حاضریاں بھی خود ہی لگا لیتے۔ فقیر نے ان کے تبادلے کے لیے سلسلہ جنبانی کی تو ہر قدم پر رکاوٹ کھڑی نظر آئی۔ پھر بلند ترین سطح پر کوشش کی۔ تب جا کر تین چار ماہ کے بعد یہ کام ممکن ہو سکا۔ جب ڈاکٹر صاحب کو احساس ہوا کہ تبادلہ تو ہونے لگا ہے، تو جیسے بھونچال آ گیا۔ دور و نزدیک سے، شرق و غرب سے، اوپر نیچے سے سفارشوں اور دباؤ کے پہاڑ اٹھنے لگے۔

جتنے دوست اس نیک کام سے منسلک تھے، سب نے لعن طعن کی۔ جب بتایا جاتا کہ مریض بے یار و مددگار ہیں تو کوئی جواب نہ ملتا۔ خدا خدا کر کے سولہ برس کے بعد وہ کہیں اور گئے۔ ان کی جگہ ساڑھے چھے فٹ طویل ڈاکٹر افتخار آئے۔ انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے ایک لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کرائی۔ پھر لیبارٹری کے لیے آلات منگوائے۔ ادویات کی رسد بڑھائی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی معاون لیڈی ڈاکٹر ہر روز صبح سے شام تک موجود رہتیں۔ ملازمین نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کے کنبوں کو راحت میسر آئی۔ آج یہ ڈسپنسری، عملی طور پر چھوٹا سا اسپتال ہے! خلقِ خدا فیض یاب ہو رہی ہے۔

ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ لڑکیاں تعلیم نہ حاصل کریں۔ ڈاکٹر بنیں نہ نرسیں۔ پھر جب اپنے گھر کی عورتیں بیمار ہوں تو علاج مرد ڈاکٹر نہ کریں، لیڈی ڈاکٹر ہی کرے!
؎ کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں!
(بشکریہ روزنامہ 92 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).