عثمان بزدار: تماشے اور کرتب میں فرق ہوتا ہے – مسترد شدہ کالم


بہت سوچا۔ یقین مانیے بہت سوچا کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب کا منصب سونپا گیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم ہر جگہ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں؟ کیا وجہ ہے ہر میٹنگ میں عثمان بزدار کی مثالیں دی جا رہی ہوتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر عثمان بزدار کا دفاع کیا جا رہا ہوتا ہے؟ کیا وجہ ہے عثمان بزدار کے ساتھ صوفے پر بیٹھے دیہاتیوں کی تصویر سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرنے کی ضرورت پڑی؟

کیا وجہ ہے کہ عثمان بزدار کو سیاست کا وسیم اکرم تعبیر کیا جا رہا ہے؟ سیاسی مبصرین اس بارے میں اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ کوئی اسے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی کا شاخسانہ بتاتا ہے۔ کوئی وزیر اعظم کے گھر سے ان کی سفارش کا پتا دیتا ہے۔ کوئی ان کے آبائی گھر میں بجلی نہ ہونے کو ان کی واحد قابلیت بتاتا ہے۔ اس تعیناتی کے معاملے پر ٹی وی پروگراموں میں تجزیہ کاروں اور میڈیا اینکروں نے عثمان بزدار کو بہت رگیدا۔

اس کالم کا مقصد قطعاً وزیر اعلی پنجاب کا تمسخر اڑانا نہیں ہے بلکہ اس تحریر کا مقصد ان عوامل کا جائزہ لینا ہے جن کی بناء پر یہ تعیناتی عمل میں آئی ہے۔ دیکھا جائے تو بظاہر عثمان بزدار میں کوئِ بھی ایسی خوبی نطر نہیں اتی۔ نہ وہ بلا کے خطیب ہیں نہ انتظامی معاملات کا کوئی بہت تجربہ ہے نہ بیوروکریسی سے نمٹنے کا گر انہیں آتا ہے نہ تعلیم کے میدان میں انہوں نے کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں نہ کھیل کے میدان کی وہ کوئی قد آور شخصیت رہے ہیں۔

نہ سماجی خدمات میں ان کا نام سنا ہے اور نہ ہی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ معروف ہیں۔ نہ پبلک ریلیشنگ ان کا شعبہ رہا ہے۔ یقین مانیے صوبائی اسسمبلی کی شکل بھی انہوں نے پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ اس سے پہلے وہ دو دفعہ دوہزار ایک اور دو ہزار پانچ میں مشرف دور میں ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے کے تحصیل ناظم ضرور رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ کوالیفکیشن وزیر اعلی بننے کے لئے کافی ہیں؟ انہی عوامل پر آج غور کرنا ہے۔

عثمان بزدار کا تعلق بزدار قبیلے سے ہے۔ یہ قبیلہ ڈی جی خان اور راجن پور کے ان نو، تمن قبائل میں سے ایک ہے جنہیں انگریز سرکار نے بہت انعام و اکرام اور سرکاری زمین سے نوازا تھا۔ کوہ سلیمان کا پہاڑی قبائلی علاقہ بارتھی عثمان بزدار کا آبائی علاقہ ہے۔ عثمان بزدار یکم مئی انیس سو انہتر بارتھی میں پیدا ہوئے۔ حالیہ وزیر اعلی پنجاب نے پرائمری تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول بارتھی سے حاصل کی۔

چھٹی جماعت سے نویں جماعت تک تعلیم گورنمنٹ بوائز ہائی سکول بارتھی سے حاصل کی۔ نویں جماعت میں ڈی جی خان آ گئے اور کمپری ہینسو ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایف اے اور بی اے کی تعلیم گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ڈی جی خان سے حاصل کی۔ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا اور وکالت کی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ تعلیم کے میدان میں کوئی کارنامہ ان کے نام سے منسوب نہیں ہیں۔ وکالت کی بھی پریکٹس کبھی نہیں کی۔

تحصیل ناظم کے دور میں ایک دفعہ ان کو سن دو ہزار دو میں ناظمین کی ٹریننگ کے سلسلے میں امریکہ یاترا کا بھی موقع ملا اسی دور میں چوہدری احسن جمیل گجر سے بھی ان کی صاحب سلامت ہو گئی۔ البتہ ان کے والد سردار فتح محمد خان بزدار تین دفعہ ایم پی اے رہے۔ پہلی دفعہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور دو دفعہ، دو ہزار دو اور دوہزار آٹھ میں وہ ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔

عثمان بزدار نے دو ہزار تیرہ میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ سے لڑا مگر پیپلز پارٹی کے امیدوار خواجہ ناظم المحمود سے شکست کھا گئے۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے جب جنوبی پنجاب محاذ تشکیل پایا تو عثمان بزدار اس کا حصہ بنے اور اس طرح پی ٹیِ آئی میں ان کی شمولیت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے لئے ان کی کوئی خاص خدمات نہیں، نہ ہی اس جماعت سے ان کی وابستگی پرانی ہے۔ سنا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جب انہیں عمران خان نے جہانگیر ترین کی موجودگی میں مدعو کیا اور وزارت اعلی کی ذمہ داری دینے کا بتایا تو کہنے والے کہتے ہیں عثمان بزدار ہکا بکا رہ گئے اور دیر تک کوئی بات نہیں کر سکے۔ ان تمام کوائف کو بیان کر دینے کے بعد بھی عام عوام کو وہ وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی جن کی بناء پر وزیر اعظم ہر مقام پر عثمان بزدار کو ایسا ہیرا قرار دیتے ہیں جن کو صرف ان کی جوہر شناس نگاہیں تلاش کر سکیں۔

جس وقت عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنایا گیا تو میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ہر اینکر اور سیاسی تجزیہ کار نے ان کے لتے لئے۔ پی ٹی آئی کے اپنے حامی بھی صدمے کی کیفیت میں تھے۔ تبدیلی انہیں عثمان بزدار کی صورت میں راس ہی نہیں آ رہی تھی۔ ہر ٹاک شو میں عثمان بزدار پر تنقید شروع ہو گئی۔ اخبارات کے کالم ان کے نام نامی سے بھر گئے۔ اس پر طرہ یہ کہ گاہے بگاہے وزیر اعظم عمران خان جیسے ان کے نام سے قوم کو چڑانے لگے۔ کبھی ان کو اپنا دست راست قرار دیتے اور کبھی وسیم اکرم بتاتے۔ اس تمام تر توجہ کی وجہ کیا ہے اس بارے میں تاریخ خاموش ہی رہی۔ ان کے کوائف ایسے ہی ہیں جیسے سب کے ہوتے ہیں تو پھر اس انعام و اکرام کی وجہ کیا ہے؟

بعض اوقات پیش منظر پر توجہ اتنی زیادہ کر دی جاتی ہے کہ پس منظر دھندلا جاتا ہے۔ سامنے کی شے اس طرح جگمگانے لگتی ہے کہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ عثمان بزدار کی تعریف اور تنقید کے ضمن میں ہم اس طرح گم ہوئے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ دوسرے صوبوں میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا وزیر اعلی پنجاب کی اہلیت کی بحث میں ہمیں یاد رہا کہ بلوچستان کی کیا صورت حال ہے۔ کیا اختر مینگل کے ساتھ کیے گئے چھ نکات پر کوئی پیش رفت ہوئی؟

ان کے مطالبات کے مطابق مسنگ پرسنز کا کوئی حل تجویز ہوا؟ بلوچستان کے حقوق پر بات ہوئی؟ معدنی ذخائر میں بلوچستان کے حصے کا کچھ بنا؟ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر کوئی بات ہوئی؟ فیڈرل میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹے پرکوئی بات ہوئی؟ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا کوئی حل نکالا گیا؟ کیا کسی کے علم میں ہے کہ بلوچستان حکومت کہ پاس بجٹ نہیں ہے وہ سٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ پر چل رہی ہے۔ باپ کے اتحاد میں رخنے پڑ رہے ہیں۔

ترقیاتی منصوبے روک دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب کے پی کے میں بی آر ٹی ایک زندہ لاش بن گئی ہے اب ایشین ڈویلمنٹ بینک نے بھی اس منصوبے پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ بلین ٹری سونامی میں ہر روز کرپشن کے نئے نئے سراغ مل رہے ہیں۔ فاٹا پر کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ عدلیہ اور پولیس کی تقرریاں شروع نہیں ہوئی۔ کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن کی تعیناتی نہیں ہوئی۔ احتساب کمیشن کا ڈبہ گول کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی تو کم ہوگئی مگر سٹریٹ کرائم روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

میڈیا کے لوگوں کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ طاہر داوڑ کے قتل کے بعد مثالی پولیس کا مورال بہت گر گیا ہے۔ مالم جبہ چیئر لفٹ پراجیکٹ میں کرپشن کے معاملات سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں پانچ روپے قیمت والی پرچی اب پانچ سو میں دستیاب ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سی عوام کی زندگی عذاب ہو رہی ہے

لیکن ان میں سے کسی ایک مسئلے پر ہماری نظر نہیں پڑی۔ اس لئے کہ ہم اس سارے عرصے میں اس مسئلے پر لڑتے جھگڑتے رہے کہ کیا عثمان بزدار، وسیم اکرم ہیں یا نہیں؟ یاد رکھیں، مداری جب کوئی تماشا دکھاتا ہے تو تماشائیوں کی توجہ کہیں اور مرکوز کرواتا ہے مگر کرتب کہیں اور ہو رہا ہوتا ہے۔ اس ساری طولانی داستان کے بیان سے سیاسیات کے طالبعلموں کو بس اتنا سمجھانا مقصود تھا تماشے اور کرتب میں فرق ہوتا ہے، ضروری نہیں جہاں تماشا لگا ہو، کرتب بھی وہیں ہو رہا ہو۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar