نیلم دریا واقعی جنت سے ہی نکلتا ہے کیا؟


بچپن سے کشمیر کو جنت نظیر خطہ سنتا آیا تھے، اب تک کئی بار اس خوبصورت ترین سرزمین کو دیکھ کر بھی ہمارا دل نہیں بھرتا۔ یقین کیجئے کشمیر واقعی جنت ہے۔ وہاں پریاں اور حورین رہتی ہیں اور وہاں سے صاف شفاف پانی، شہد اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔ ان میں سے اک نہر ”نیلم“ ہے، جس کے لئے البیرونی نے 1030 ع میں لکھا تھا کہ ”شاردا دیوی کے مندر اور بدھ یونیورسٹی کے قریب اک نہر بہتی ہے جس کا پانی صاف شفاف اور نیلے رنگ کا ہے، اس میں ’نیلم پتھر‘ بھی بہتے رہتے ہیں۔“

اس کے بعد شہنشاہ اکبر کے وزیر خاص ابوالفضل ابن مبارک نے 16 ویں صدی میں لکھا کے ”بدھ یونیورسٹی جس دریا کے کنارے آباد ہے اس دریا کا نام ’مدھو متی‘ (شہد کی ندی) ہے اور اس ندی میں سونے اور ہیرے اور دوسرے قیمتی پتھروں کے ٹکڑے بھی بہتے رہتے ہیں۔“ سناتن دھرم کے مطابق نیلم وادی کا پورا علاقہ ہزاروں سالوں سے ”شاردا دیوی کی ملکیت اور امان میں ہے“ شاردا دیوی کو ”سرسوتی دیوی“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اور وادی سے اوپر پہاڑوں کی طرف دیکھا جائے تو پہاڑوں کی چوٹیاں ایسے نقشہ بناتی ہیں کے جیسے کوئی انتہائی الھڑ جوان حور یا پری جیسی عورت اپنے پورے شباب اور جوبن کے ساتھ سبز رنگی تخت پر سو رہی ہے۔

آپ جیسے جیسے پہاڑوں کے قریب جائیں گے وہ آپ کو انگڑائیان لیتی نظر آئے گی۔ گداز بدن، سڈول بازو، ریشمی زلفین، دراز ٹانگیں، گول گول گردن، ابھرتا سینہ اور گلاب چہرا۔ واہ واہ آپ کو ہر قاتل ادا اس قیامت ادا محسوس ہوگی۔ آپ کے پاس یقین کے سوا کوئی راستہ نہیں کی وہ واقعی ”اس جنت کی حور اور اصل مالکن ہے۔ پورے کشمیر کے حسن پر اسی شاردا دیوی کا سایہ ہے۔“ سناتن دھرم کے مطابق ”سرسوتی دیوی“ اصل میں زندگی میں جنت کی علامت ہے کیونکہ شاردا (سرسوتی دیوی) اصل میں رقص، کلا اور موسیقی کی دیوی کہلاتی ہے۔

آپ نے اگر سرسوتی کا مجسمہ دیکھا ہو آپ کو یاد آجائے گا اس کی ہر ادا میں کمال رنگینیوں کا سمندر بھرا ہوگا۔ یہ شہد کا دریا، سونے اور جواہرات سے لدی ہوئی ندی واقعی جنت سے ہی نکل سکتی ہے۔ ہمیں اس ندی اور اس جنت کشمیر کی قدر کرنی چاہیے۔ بھارت میں کشن گنگا اور پاکستان مین نیلم دریا کے نام سے موسوم اصل میں ”مدھو متی“ ندی مجھے ہمیشہ دل کے قریب لگتی ہے۔ واپڈا نے اسی نہر پر 969 میگاواٹ کا ”نیلم جھلم ہائڈرو پاور پراجیکٹ“ بنا رکھا ہے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے پیداواری یونٹ سے بجلی کی پیداوار 13 اپریل 2018 ء کو شروع ہوئی تھی جبکہ 14 اگست 2018 ء تک اس کے تمام چار یونٹس مرحلہ وار مکمل کر لئے گئے تھے۔

نیلم ندی کا پانی جو مظفرآباد کے قریب ”دومیل“ پر آگر ملتا تھا اب آگے جاکر چھتر کلاس پر ملا کرے گا اس لئے کہ نیلم کے اسی پانی کو مظفرآباد سے کئی کلومیٹر پہلے ”نوسہری“ سے ڈیم بنا کر مجموعی طور پر 51.5 کلومیٹر لمبی ٹنل (واٹر وے سسٹم ) کے ذریعے جہلم دریا اور مظفرآباد شہر کے نیچے سے گزارتے ہوئے چھتر کلاس کے مقام پر پاور ہاؤس تک لایا جائے گیا ہے۔ جہاں 4 عدد ٹربائین بجلی پیدا کر رہی ہیں اور یہ ہی پانے آگے پھر جہلم میں شامل ہوجاتا ہے۔

کئی بار پہاڑ کے دو تین کلومیٹر اندر جاکر ہاکی کے دو گراؤنڈ جتنے وسیع میدان میں دس بارہ منزلہ عمارت نما پاور ہاؤس کو دیکھ کر حیران ہوجانا جائز بنتا ہے۔ باہر ”شاردا/سرسوتی دیوی“ نے کم حیران کیا تھا کہ انجنیئرنگ کے اس شاہکاروں نے دماغ ماؤف کردیا۔ ۔ ننھی سی کم فہم، کم علم و کم ادراک جان اور اور یہاں باہر اتنی بڑی روحانی اور اندر سائنسی کرامات، بات سمجھ سے باہر ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے حوالے سے تازہ خبر یہ ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اپریل 2019 ء سے شروع ہونے والے ہائی فلو سیزن میں اپنی پوری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لئے تیار ہے۔

پراجیکٹ گزشتہ 8 ماہ سے بجلی پیدا کررہا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ گزشتہ 8 ماہ میں نیشنل گرڈ کو ایک ارب 80 کروڑ یونٹ بجلی مہیا کرچکا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے پہلے پیداواری یونٹ سے بجلی کی پیداوار 13 اپریل 2018 ء کو شروع ہوئی تھی جبکہ 14 اگست 2018 ء تک اس کے تمام چار یونٹس مرحلہ وار مکمل کر لئے گئے تھے۔ چونکہ نیلم جہلم پراجیکٹ ہر لحاظ سے مکمل ہوچکا ہے، اس لئے 2019 ء میں منصوبہ سے اس کی پوری صلاحیت کے مطابق 4 ارب 60 کروڑ یونٹ سستی بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کی جائے گی۔ اب یہ شادی دیوی کی کرپا سمجھیں یا واپڈا کا کارنامہ بہرحال ہمارے لئے اچھی خبر یہ کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اپریل 2019 ء سے شروع ہونے والے ہائی فلو سیزن میں اپنی پوری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لئے تیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).