بڑا دن۔ کرسمس پاکستان میں کیسے منائی جاتی ہے؟


آج لکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی مسیحوں کی رسومات اور کرسمس کے بارے میں لکھوں۔ پاکستان میں مسیحوں کی آبادی کوئی 75 لاکھ کے قریب ہے جن میں زیادہ تر پنجابی مسیحی ہیں۔ اس خطے پر چونکہ برطانیہ کا تسلط رہا اور اسی دوران مسیحت کی تبلیغ بھی ہوئی تو عمومی تاثر یہ لیا گیا کہ مسیحی رسومات اور طوراطور وہی ہیں جو مغربی ہیں۔

ابھی دو ہفتے قبل ہی کرسمس گزرا ہے جو کہ ہم یسوع مسیح کہ ولادت کی یاد میں مناتے ہیں۔ تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں پوری دنیا کی خبریں پَلوں میں آپ تک پہنچتی ہیں۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے براعظموں میں دسمبر ایک جشن کی طرح ہوتا ہے۔ کئی روایات کرسمس سے جڑی ہیں، کئی کھانے اورکئی عبادات تو بعض اوقات دوست اجباب سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی بھی کرسمس عین اسی طرح مناتی ہے جیسے اُن ممالک کے لوگ، جیسا کرسمس آپ باہر دیکھتے ہیں، کرسمس ٹری، کرسمس پڈنگ، جنگلز۔ لوگاس طرح بھی مناتے ہیں مگر کم تعداد میں، لیکن جو مناتے ہیں وہ بہت ہی نفاست اور رکھ رکھاؤ سے مناتے ہیں۔

زیادہ تر طبقہ کچھ روایات انگریزی والی لیتا اور کچھ اپنی، کرسمس ٹری کوئی مذہبی علامت نہیں، ایک روایت ہے جس کو زیادہ تر لوگ مناتے ہیں، سانتا کلاز یا کرسمس فادر ایک دیومالائی کردار ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نہیں ہوتا، کچھ لوگ اسے سیلیبریٹ کرتے ہیں، کچھ نہیں کرتے۔ وہ صرف بچوں کی خوشی کے لیے ہوتا ہے، جِنگل بیل ایک عام کرسمس گیت ہے لیکن پاکستانی مسیحوں کی اکثریت اس کو نہ جانتی ہے اور نہ گاتی ہے، ہمارے گھروں میں کرسمس گیت زیادہ ترپنجابی اور اردو میں گائے جاتے ہیں اور چند ایک انگریزی میں بھی۔

یہاں یہ بتا دوں کہ پاکستان میں سارے چرچ بہت بڑے بڑے گوتھک طرز کے شاہکار نہیں ہوتے۔ یہ وہی چرچ ہیں جو یا تو برطانوی راج میں بنے یا پھر ان کلیسیاوں کے ہیں جن کا تعلق ایسی جماعتوں سے جو اس دور میں یہاں آئیں۔ عام چرچ ایک سادہ ہال جیسے ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو سکول کے ہال بھی ہو سکتے ہیں۔ جس کو مقامی کلیسیا اپنے حساب سے سجا سنوار کر رکھتی ہے۔ مجھے یاد ہے میرے ایک دوست نے بڑا اصرار کیا کہ گرجا گھر دیکھنا ہے، جب میں انہیں لے گیا تو وہ حیران ہوئے کہ وہ تو ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے گرجا گھروں سے مختلف تھا۔

بہت سے گھروں میں کرسمس ٹری نہیں لگتا، کچھ میں چھت پر جگمگاتا ستارہ لگاتے ہیں کچھ میں وہ بھی نہیں۔

کرسمس لفظ عام نہیں لوگ کرسمس کو ”بڑا دن“ کہتے ہیں۔ بڑے دن کی تیاری تو یکم دسمبر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ گھروں کو رنگ روغن کرتے ہیں۔ پہلے تو ”گُڈی کاغذ“ لا کر رات رات بھر کاٹ کرجھنڈیاں بناتے پھر ڈور کے اوپر چسپاں کرتے تھے پھر ان کو پورے صحن اور چھت پر لگاتے تھے، اب برقی قمقموں نے کام آسان کر دیا۔ لکڑی سے اسٹار بناتے ہیں اور لائٹ لگا کر بانس کے ذریعے چھت پر لگا دہتے ہیں۔

بعض گھروں میں اور بعض بڑی مسیحی آبادیوں کے چوراہوں میں۔ ”چرنی“ ( کُھرلی) بنائی جاتی ہے۔ لوگ انجیل میں مرقوم واقعاتِ ولادت کی مناسبت سے سرائے اور طویلے کا ماحول بناتے ہیں۔ جہاں ایک چرنی اور ارد گرد بھیڑ بکریاں، گائے اور دیگر جانور دکھائے جاتے ہیں۔

بڑے دن کی ایک روایت کرسمس ڈرامہ اور بچوں کا پروگرام ہوتا ہے۔ یسوع مسیح کی پیدائش کے واقعات جو انجیل مقدس میں لکھے ہیں ان پر مبنی خاکے چرچ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جو کہ زیادہ تر مجوسیوں اور چرواہوں کے کرداروں پر ہوتے ہیں، یہ خاکے بعض شہروں میں انگریزی، زیادہ تر میں اردو اور کہیں پنجابی اور سندھی میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اور بچوں بڑوں میں یکساں مقبول ہیں۔ اسی کے ساتھ کرسمس گیتوں کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں انگریزی، اردو اور پنجابی میں گیت گائے جاتے ہیں۔ گھروں میں والدین ڈرائی فروٹس لا کر رکھتے ہیں۔ کچھ گھروں میں پنیاں، سوجی کا حلوہ اور دیگر دیسی سوئٹ ڈشز بنتی ہیں۔

24 دسمبر کی شام بڑے دن کا ماحول عروج پر ہوتا ہے۔ گھروں پر ستارے جگمگا رہے ہوتے ہیں، چراغاں ہو رہا ہوتا ہے۔ بعض گھروں میں کرسمس ٹری سجے ہوتے ہیں اور جگمگا رہے ہوتے ہیں۔ 24 اور 25 دسمبر کی درمیانی شب ایک عبادت منعقد ہوتی ہے جو مختصر ہوتی ہے۔ بڑے دن کے گیت گائے جاتے ہیں، شکرگزاری کی دعائیں کی جاتی ہیں اور ایک پیغام (خطبہ) ہوتا ہے۔ عبادت کے اختتام پر کیک کاٹے جاتے ہیں اور کہیں مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔

اس کے بعد کرسمس کی قدیم ترین روایت پرعمل ہوتا ہے۔ نوجوانوں ٹولیاں بنا کر مسیحی گھروں میں جاتے ہیں دروازے پر سازوں کے ساتھ گیت گائے جاتے ہیں، گھر والے گیتوں کی آواز سن کر دروازہ کھولتے ہیں، ان کو مٹھائی /چائے وغیرہ پیش کرتے ہیں اور یہ ٹولی اگلے گھر کو روانہ ہو جاتی ہے۔ جہاں ایک ہی آبادی ہو وہاں پیدل ہی جاتے ورنہ، رکشوں یا پک اپ وین پر، دیہات میں دور دراز ڈیروں تک تو ٹریکٹر ٹرالی پر بھی جاتے ہیں۔

کچھ سال پہلے تک گھر کی خواتین ان نوجوانوں کے لیے خصوصی پکوان بنایا کرتی تھیں۔ حلوہ پوریاں، مَٹھیاں، پنیاں اور گڑ والی چائے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے تو لوگ کیک اور مٹھائی سے تواضع کرتے ہیں۔ یہ لوگ صبح چار بجے تک ایک سے دوسرے گھر تک ٹولیوں کی صورت جاتے ہیں۔

کرسمس کا دن عید کا دن ہے تو وہی خوشی، وہی جوش و خروش، نئے کپڑے، بچوں کو عیدی اور کرسمس کی خصوصی عبادات۔ اس عبادت میں بھی کرسمس کے گیت، کرسمس کا پیغام اور شکرگزاری کی دعائیں ہوتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے حکومتی عہدیدار یا سیاستدان اس عبادت میں کرسمس کی مبارک دینے آتے ہیں۔ بہت اچھا کرتے ہیں مگر ان کی آمد کبھی کبھی عبادت میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ میڈیا والے اپنے ٹایم پر لائیو ہونے کے چکرمیں عبادت رکوا کر پادری صاحبان سے گفتگو کرتے ہیں۔

وہ پادری صاحبان بھی درست نہیں کرتے۔ عبادت کی وڈیو لینے دیا کریں اور اپنا مدعا بعد میں باہر ریکارڈ کرانا مناسب ہو گا۔ جب وہ خعد عبادت کے تقدس کا خیال نہیں رکھتے تو باہر سے آنے والے اسے محض ”دعائیہ تقریب“ ہی سمجھیں گے عبادت نہیں۔ مہمانوں کو بھی عبادت کے اختتام کے قریب مناسب وقت پر مبارکباد دہنے کا موقع ہونا چاہیے تاکہ تسلسل نہ ٹوٹے۔

عبادت کے بعد لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، مبارکباد دیتے ہیں، کچھ گرجا گھروں میں اجتمائی ظہرانہ ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ واپس جا کر کرسمس کے کھانے بنانے میں جُٹ جاتے ہیں۔ کہیں پر کچھ گھروں میں مغربی روائیتی پڈنگ بنتی ہے، کیک بنتے ہیں مگر زیادہ تر لوگ اپنے دیسی کھانے بناتے۔ جس طرح عیدین پر مسلم احباب بناتے ہیں، بریانی، پلاؤ، قورمہ، کوفتے یا چائنیزاورتھائی جو دل میں آئے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے جیسے دیہات والے تو اس روز عام طور پر بیف وغیرہ بناتے ہیں، چاول، روٹی، اور میٹھے میں میٹھے چاول، سویاں یا سوجی کا حلوہ۔ کرسمس ہمارے اپنے گھر میں سالہا سال سے روایت ہے کہ کرسمس کی دوپہر کا کھانا ”پائے“ بنتا ہے۔ لکڑی کی ہلکی آنچ پر گھنٹوں پکے پائے۔ ٹھیٹھ پنجابی کرسمس کھانا اور پھر رات گئے تک عزیر و اقارب کے ہاں جانا آنا لگا رہتا ہے۔ یوں کرسمس گزرتا ہے۔
کرسمس خوشی ہے جس کا اظہار ہر علاقے کے لوگ اپنے انداز میں کرتے ہیں اور یہی اس کا حُسن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).