جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا


بہت دل چاہ رہا ہے نواز شریف پر کچھ لکھنے کو۔ چھ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس سے متعلق فیصلہ آگیا۔ نواز شریف کا جُرم ان کے بچوں کے نام بیرونِ ملک پراپرٹی ہے بچوں کے نام اربوں کی جائیداد کی ملکیت جب ظاہر ہوتی ہے تب ان کے بچوں کی عمر پندرہ، اور سترہ سال تھی۔ اور ظاہر ہے نابالغ بچے اربوں کی جائیداد کیسے بنا سکتے ہیں۔ اس الجھی گتھی کو سلجھانے میں نواز شریف ناکام رہے اور کیس کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آگیا۔

قوم کو اس فیصلہ کا بڑا انتظار تھا۔ مخالفین تو ایک طرف نواز شریف کی حمائیت کرنے والوں کو بھی پتہ تھا کہ سزا تو ہوگی۔ اور سزا ہو گئی۔ سزا ہونی بھی چاہیے تھی کہ نواز شریف نے کرپشن کے ذریعے بیرونِ ملک جائیدایں بنائیں تھیں۔ ءٰ اور بلا امتیاز عدل فراہم کرنا منصف کا فرض ہے۔ اگر کوئی بڑا جرم کرے تو اس کو درگزر کردیا جائے اور چھوٹے کو سزا دی جائے تو یہ بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے اور قاضئی وقت مجرم ٹھہرتا ہے۔

نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا اور دونوں باپ بیٹی کو مجموعی طور پر گیارہ سال اور آٹھ سال کی سزا سنائی گئی۔ قانون کے مطابق اگر نواز شریف سات دن کے اندر گرفتاری نہ دیتے تو ان کی اپیل سماعت کے لئے منظور نہ ہوتی۔ سو نواز شریف کو واپس آنا ہی تھا۔ دوسرا چند دن بعد الیکشن تھے۔ اگر نواز شریف وطن واپس نہیں آتے تو ان کی سیاست ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتی۔ نواز شریف کی وطن واپسی سے ان کا سیاسی قد بڑھ گیا۔

اور جو کہتے تھے کہ مسلم۔ لیگ ن ختم ہو گئی۔ وہ جان لیں کہ نواز شریف کہ اس قدم سے مسلم۔ لیگ پھر سے ابھری ہے۔ مسلم۔ لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی طرح بھٹو مل گیا ہے۔ اور مسلم لیگ ن کو استحکام ملا ہے۔ اور جماعت دفن ہونے سے بچ گئی۔ پسِ منظر کچھ بھی ہو لیکن نواز شریف کی وطن واپسی اور گرفتاری نے ثابت کیا کہ وہ ایک دلیر لیڈر ہیں۔ وہ پوری شان سے گرفتار ہوئے۔ اور ان کی یہ شان دیھ کر یہ شعر یاد آگیا

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

انھوں نے گرفتاری دے کر خود کو سیاسی شہید بنا لیا۔ اور یوں لگتا ہے وہ بھٹو سے بڑے لیڈر بن کر سامنے آئیں گے۔ وہ جنرل مشرف سے دلیر ثابت ہوئے ہیں۔ جو بیٹی کو لے کر گرفتاری دینے وطن واپس اگئے۔ نواز شریف چاہتے تو کسی ملک میں سیاسی پناہ لے سکتے تھے اور ادھر عیش کی زندگی بسر کرتے۔ لیکن وہ واپس آئے اور گرفتاری دے کر ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے لیڈر ہیں۔ اور عمران خاں تو اپنے بھولپن اور سادگی میں انھیں خود ہی نیلسن منڈیلا کا خطاب دے چکے ہیں۔

نواز شریف مجرم ہیں یا نہیں یہ فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے ہم جیسے لوگ اس پر بات نہیں کر سکتے لیکن نواز شریف ایک اچھے اور دلیر لیڈر ہیں اس کا فیصلہ عوام کر سکتے ہیں۔ دو ہزارتیرہ انتخابات کے وقت معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ مشرف اور اس کی چھوڑی باقیات نے ملک کو تباہ کر دیا تھا۔ دہشت گردی عروج پر تھی۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث کارخانے بند اور مزدور بے روزگار ہو چکے تھے۔ لوڈ شیدنگ اور بجلی کے بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے لوگ اپنے کارخانے بنگلہ دیش منتقل کر رہے تھے۔

دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہر روز مائیں اپنے لخت جگر کھو رہی تھیں۔ تب الیکشن کمپین چلانے کے لئے بجلی کی دستیابی کا نعرہ لگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کا نعرہ دیا گیا۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ گذشتہ حکومت اپنے وعدوں میں پوری نہ سہی تو آدھی سے زیادہ کامیاب ہوئی۔ دوہزار تیرہ سے پہلے جس طرح بجلی کا بحران تھا اس پر قابو پا لیا گیا۔ دہشت گرد حملے ختم ہو گئے۔ کراچی شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کا خاتمہ ہوا۔

کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں۔ اور کراچی کا یہ امن سندھ میں موجود پیپلز پارٹی کی حکومت کی وجہ سے نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت کی وجہ سے ہوا۔ ملک میًں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ کاش وہ کرپشن کے الزام میں بری ہو جاتے ان کا دامن صاف نکل آتا۔ عمران خان نے روائیتی سیاستدانوں کی طرح ہر ممکن کوشش کی کہ نواز شریف کی حکومت گر جائے۔ حکومت کو کام نہ کرنے دیا جائے۔ لیکن حکومت اپنا کام کرتی رہی۔ اور مجموعی طور پر گذشتہ حکومتوں سے بہتر کار کردگی دکھائی۔

موجودہ حالات کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے ساز گار ہیں۔ کہ ملک جن بڑے مسائل سے دوچار تھا وہ حل ہو چکے۔ اب کھیلنے کو کھلا میدان ہے بس شرط یہ ہے کہ کھلاڑی کو کھیلنا آتا ہو۔ اور کھلاڑی نے اپنے منشور میں سب سے آسان ہدف رکھا ہے کہ وہ ایک ارب درخت لگا ئے گا۔ جبکہ گذشتہ حکومت میں وہ درخت لگانے میں بھی ناکام رہا۔ ساتھ ہی وہ الیکشن سے پہلے ہہ اپنی سادگی میں اپنی ناکامی کو تسلیم کر گیا ہے کہ موجودہ حالات میں وعدوں ِ کو پورا کرنا آسان نہیں یعنی اگر اسے حکومت ملتی ہے تو قوم اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کرے حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خاں میں سیاسی بصیرت نام۔

کو نہیں۔ وہ صرف دھرنوں کی سیاست جانتے ہیں۔ وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر تو کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن فرنٹ مین کے طور پر ناکام رہیں گے۔ خیر موجودہ الیکشن میں کوئی بھی پارٹی اقتدار حاصل کرتی ہے اس کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار کی کرسی پہ بیتھنا آسان نہیں۔ یہ آگ کا دریا ہے۔ ہر صاحبِ مقتدر کو یاد رکھنا چاہیٰے کہ جس منصب پر وہ آج جس پر تخت نشین ہوا اس کا راستہ اقتدار کی غلام گردشوں سے ہوتا ہوا کال کوٹٹھری تک لے جاتا ہے۔ سو اسے ماضی سے سبق سیکھ کر ایمانداری سے اقتدارسنبھالنا چاہیے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تخت والوں کا نصیب ہمیشہ تختہ یا کال کوٹٹھری ہی کیوں ہوتی ہے تخت والوں کے انجام پر اگر غورو فکر کیا جائے تو انسان دنیا کی ہوس چھوڑ دے۔ کاش کوئی تو صرف انسان بن کر حکومت کرے حاکمِِ وقت بن کر نہیں۔ کاش۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).