اینکر پرسن کامران خان اور لورالائی کے دہشت گرد


بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی اکائی ہے۔ پشتونوں اور بلوچوں کے اس مشترکہ گھر کو جس طرح مرکزی حکومتوں نے ہر دور میں پسماندہ رکھا ہے اسی حساب سے اس کے بنیادی مسائل کو میڈیا نے بھی حتی الوسع نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ پہلے تو یہاں کے بنیادی مسائل کو ملکی میڈیا میں کوریج نہیں ملتی لیکن جب بعض اوقات یہ صوبہ میڈیا میں خبروں کی زینت بنتا بھی ہے تو بدقسمتی سے یا تو جان بوجھ کر اس کا امیج خراب پیش کیا جاتاہے یا پھراس کے منفی پہلووں پر بات کی جاتی ہے۔

میڈیا میں بلوچستان کی خراب امیج پیش کرنے کی زندہ مثال پچھلے دنوں دنیا ٹی وی کا ضلع لورالائی کے حوالے سے ایک ٹاک شو ہے جس کی میزبانی طویل عرصے سے نامی گرامی اینکر پرسن کامران خان صاحب کررہے ہیں۔ مذکورہ پروگرام میں جناب کامران خان نے ضلع لورالائی کی ایف سی ٹریننگ سنٹر پر یکم جنوری پر ہونے والے دہشت گرد حملے پر بات کرتے ہوئے اس علاقے کو نہ صرف تحریک طالبان، را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ہرکاروں کا گڑھ ڈکلیئر کیا بلکہ عراق اور شام میں پنپنے والی خونخوار تنظیم داعش کے جنگجووں کا محفوظ ٹھکانہ بھی قرار دیا۔ اپنے پروگرام میں کامران خان صاحب نے ضلع لورالائی کا جو جغرافیہ پیش کیا ہے وہ بھی انتہائی مضحکہ خیز اور حد درجے لاعلمی پر مبنی ہے۔ موصوف اینکر اس پروگرام میں لورالائی حملے اور یہاں کے حالات اور جغرافیہ کچھ یوں بیان فرما رہے تھے:

’’لورالائی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ایک سو چالیس کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں مغرب میں افغانستان سے ملتی ہے ، اور یہان کہا یہ جاتا ہے کہ داعش اور ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرگرم ہیں لیکن وہ یہ علاقہ ہے لیکن یہ جوکہ․․․․ یہ جو پورا خطہ ہے․․․․ اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں پاکستان کی دشمن کی خفیہ ایجنسیز ہیں، بھارت کی خفیہ ایجنسیز ،افغانستان کی خفیہ ایجنسیز، وہ افغانستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں چلاتی ہیں، افغانستان میں دہشتگردوں کو ٹریننگ دیتی ہے اس کے بعد اسے پاکستان میں استعمال کرتی ہیں لیکن آج اس سلسلے میں ایک بڑی ناکامی ہوئی ہے دہشتگردوں کو لورالائی کے علاقے میں‘‘۔

اولاً توکامران خان صاحب نے اس پروگرام میں اول تو ضلع لورالائی کے جغرافیے کوبڑے غلط انداز میں بیان کیا ہے۔ حالانکہ لورالائی کی سرحدیں افغانستان سے نہیں بلکہ اس کی سرحدیں ضلع ژوب اور ضلع قلعہ سیف اﷲ سے متصل ہیں جبکہ ژوب اور قلعہ سیف اﷲ کی سرحدیں اٖفغانستان سے ملتی ہے۔ جبکہ ثانیاً انہوں نے ضلع لورالائی کو دنیا کے خطرناک دہشتگردوں کا گڑھ اور مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا ٹھکانہ قرار دیاہے جس کو محض ایک بے بنیاد الزام اور اتہام ہی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بتاتاچلوں کہ الحمدﷲ پہلے تو پورے بلوچستان میں سوائے کوئٹہ شہرکے باقی تمام پشتون بیلٹ کا شمار پرامن علاقوں میں ہوتاہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پشتون بیلٹ میں بالخصوص ضلع لورالائی ، قلعہ سیف اﷲ ، موسیٰ خیل ، ژوب اور شیرانی تو وہ خو ش قسمت اضلاع ہیں جہاں پر دہشتگردی کے سترہ سالہ سیزن میں بھی بہت کم اور شاذ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں۔اسی لئے تو ان علاقوں میں جب بھی اس قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ہر کسی کے لئے وہ غیر متوقع اور کسی انہونی سے کم نہیں ہوتا۔

آج سے چار پانچ برس پہلے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں نے قلعہ سیف اﷲ اور ژوب کے بیچ گوال اسماعیل زئی کے علاقے اور مرغہ کبزئی میں بیشک طبع آزمائی کی۔ جابجا پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور لیویز فورس کے اہلکاروں کو نشانہ بھی بنایا گیا اور اغوا کا اکا دکا واقعہ بھی پیش آیا لیکن علاقے کے غیور عوام اور مختلف سیاسی جماعتوں کی فعال قیادت کے باہمی اتحاد اور سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کی وجہ سے وہی مٹھی بھر دہشت گرد بھی بھاگ نکلے۔ اس سلسلے میں باالخصوص سابق ایم این اے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین مولانا محمد خان شیرانی نے جگہ جگہ پروگرام منعقد کرکے اس عفریت کے خلاف نہایت موثرانداز میں اپنی آواز بلند کی۔

میں نہیں سمجھتا کہ کامران خان صاحب کو ان سب کچھ کے باوجود پھر بھی اس علاقے میں داعش اور ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں کیسے اور کیونکر نظر آنے لگے اور ادھرحال یہ ہے کہ موصوف اینکرکو مذکورہ علاقے کے جغرافیے کے بارے معلومات بھی نہیں ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف کامران خان صاحب جیسے اینکرز نے اسلام آباد اور کراچی میں داعش کی وال چاکنگ اور پبلسٹی پر ہمیشہ خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن دوسری طرف لورالائی جیسے پرامن علاقوں میں انہیں داعش کے ٹھکانے نظر آتے ہیں۔ جب سے کامران خان صاحب کے یہ بے بنیاد انکشافات سامنے آئے ہیں ، اسی وقت سے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ آخر موصوف اینکر پرسن کیونکر بلا کسی ثبوت اور معقول دلیل کے اس علاقے کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟

آخر میں جناب کامران خان صاحب سے دست بستہ گزارش کرتاہوں کہ خدارا! عسکریت پسندی کے نازک مسئلے پر بغیر کسی جامع تحقیق کے نہ تو بلوچستان کے پرامن علاقوں کی بھیانک تصویر پیش کریں اور نہ ہی ایسے واہموں سے بیرونی دنیا کو مزید ملک و قوم کی جگ ہنسائی کا موقع دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).