سمت ہی تو درست نہیں


پچھلے ایک سو پچیس دنوں میں یہ فقرہ ایک کروڑ پچیس لاکھ مرتبہ تو ضرور کہا گیا ہو گا۔ ہر روز ایک لاکھ مرتبہ کم از کم۔ کہ حکومت کی سمت درست ہے۔ سوال ہے کیسے؟ عالمی سرمایہ کاری میں چالیس فیصد تک کمی ہو گئی اور سمت درست ہے۔ سٹاک ایکس چینج میں سولہ ہزار پوائنٹس سے زائد کی کمی ہو گئی مگر سمت درست ہے۔ ریونیو کولیکشن میں پونے دو سو ارب کا چھ ماہ میں ریکارڈ شارٹ فال آ گیا مگر سمت درست ہے۔ قرضوں اور ادھار کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے مگر سمت درست ہے۔ دالوں سے گاڑیوں تک ہر شے مہنگی ہو گئی مگر سمت درست ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں عالمی سطح پر اربوں روپوں کے جرمانے ہونے لگے مگر سمت درست ہے۔ بجلی پانی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر پہنچ گئی مگر سمت درست ہے۔ لاہور سمیت شہروں میں ترقیاتی فنڈز کے اجرا یعنی گلی محلے میں گٹروں کے ٹوٹے ہوئے ڈھکنوں تک کی تبدیلی روک دی گئی مگر سمت درست ہے۔ بغیر منصوبہ بندی تجاوزات کے خاتمے کی بے ہنگم مہم کے نتیجے میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے روزگار ہو گئے مگر سمت درست ہے اور خود میرے اپنے شعبے صحافت پر تاریخ کا بدترین وقت آ گیا۔ ادارے مالی بحران کا شکار ہوئے۔ پندرہ ہزار صحافی بے روزگار ہو چکے مگر فقرہ وہی ہے کہ سمت درست ہے۔ جی نہیں۔ سمت ہی تو درست نہیں ہے۔

میں سیاست کو بیچ میں نہیں لانا چاہتا مگر یہی تو وہ غلط سمت ہے جس کی طرف قوم کو لے جایا جا رہا ہے۔ ایسی سمت جس میں سیاست اور صحافت دونوں ہی موجود نہ ہوں۔ وہ چودھری برادران ہوں یا محترم پرویز مشرف۔ وہ اپنے عہدے پر کام کی اجازت حاصل کرنے والے زلفی بخاری ہوں یا خود غیر قانونی تعمیرات کو ریگولر کروانے کی ہدایت پانے والے جناب عمران خان۔ ایک خاص سیاسی نکتہ نظر کے حامی ریلیف پر ریلیف پاتے چلے جا رہے ہیں اور دوسرے تمام سزا تو اس سمت کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو متنازع بناتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مضبوط وفاق کا مقدمہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ بہت سی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ہم مضبوط وفاق کا مزا بھی ملک عزیز کے دو لخت ہونے کی صورت میں چکھ چکے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کی بنیاد ہی جمہوریت اور علاقائی خود مختاری پر رکھی گئی تھی اور جب ہم نے اس بنیاد کو ترک کیا تونقصان اٹھانا پڑا۔ وہ بنیادی باتیں جو آج سے لگ بھگ اسی برس پہلے منٹو پارک میں جمع ہونے والوں کو سمجھ آ گئی تھیں وہ آج بھی ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔

ہمارے موجودہ سفر کی توجہ اور سمت صرف ایک ہے اور وہ احتساب کے نام پر انتقام ہے۔ یہ وہ سمت ہے جو ایوب خان کے دور سے ہی طے ہے مگر ہمارے دوست اسی ایک فقرے کی گردان کرتے ہیں۔ میں نے ایک بہت سینئر اور نیک نام صحافی کے ٹی وی پروگرام میں عرض کی کہ اگر اس سمت کا صرف معاشی حوالے سے ہی جائزہ لے لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ تین برس کے بعد جب ادھار کے تیل اور نئے قرضوں کے سود اور قسطوں کی صورت میں ایک نیا مالی بوجھ ملکی اقتصادیات کے کندھوں پر سوار ہو گا تو اس وقت تک اگر کوئی بہتری ہوئی بھی تواس بوجھ تلے بیٹھ جائے گی۔ اس پروگرام میں ایک ایسے کالم نگار اور شاعر بھی مدعو تھے جو پروگرام شروع ہونے سے پہلے جناب عمران خان سے ملاقاتیں کروانے کی دعوتیں دے رہے تھے جیسے یہ ان کے علاقائی پس منظر کی وجہ سے ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو اور پروگرام شروع ہونے کے بعد ایف بی آر کے چھ ماہ کے ستر ارب سے زائد کے شارٹ فال کے ذکر پر بھی جھوٹ۔ جھوٹ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

ہمارے ان دوستوں کے پاس سمت درست ہے کے علاوہ دوسرا موقف تحریک انصاف کے علاوہ ہر کسی کے کرپٹ ہونے کا ہے۔ وہ ہمارے بزرگ صحافی کے بطور میزبان کئے جانے والے سوال تک برداشت نہیں کر سکے اور جو دولتیاں کرپشن کے الزامات پر مسلم لیگ نون کو جھاڑی جا رہی تھیں وہی ایک عدد دوسروں سے گفتگو میں اپنے کراچی کی اردو کے بہترین لہجے اور ملنسار انداز والے صاحب کو بھی جھاڑ دی گئی جس کا انہوں نے سخت ردعمل دیا۔ اگر لفظوں کے ہتھیاروں سے کردار کا قتل ہوتا ہے تو وہاں یہ غارت گری بھی ہوئی۔ پروگرام ریکارڈڈ نہ ہوتا تو یقینی طور پر اس وقت تک سوشل میڈیا پر ایک بڑا میدان لگا ہوتا مگر وضع داری کے حامل صحافی نے اسے ایڈٹ کروا دیا۔ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر کسی پر کرپشن کی چڑھائی کردینا بھی درست سمت نہیں ہے۔ یہ وہی سمت ہے جس نے اپنے مخالفین کے گریبانوں کے سوا کچھ دیکھنے نہیں دیا۔

کاش! ہم بیرونی محاذ ہی سیدھے ہوچکے ہوتے مگر وہاں بھی ایسا نہیں ہے۔ ہم نے ضیاء اور مشرف ادوار میں امریکی مفادات کی جنگ اتنی زیادہ لڑی ہے کہ وہ خود ہماری اپنی جنگ بن گئی۔ جناب عمران خان جب ایک خاص موڈ میں ہوتے تھے تو سخت لفظوں میں اس جنگ سے باہر آنے کی باتیں کرتے تھے ۔ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ ہم کہہ دیتے کہ ہمیں پرائی کچھ نہیں پڑی۔ ہم نے تو اپنی نبیڑنی ہے مگر ہم ایک مرتبہ پھر امریکا اور طالبان کی دلالی میں منہ کالا کروانے پہنچ گئے او ر یقینی طور پر ہمیں اس کے نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

خارجہ پالیسی کی سمت یوں ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر خطرات کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہمسائیوں سے تعلقات بارے حکمت عملی کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔ واپس معیشت پر آتے ہیں تو اس سمت کو کیسے درست کہا جا سکتا ہے جس میں لیپ ٹاپ کی بجائے مرغیاں اور انڈے تقسیم کرنے کی پالیسیاں دی جا رہی ہوں۔ بھارت اور بنگلہ دیشن میں ترقی کی شرح آگے جا رہی ہو اور ہمارے پاس ریورس گئیر لگ گیا ہو۔ بھلا ریورس گئیر میں چلنے والی گاڑی کو بھی کوئی درست سمت میں قرار دے سکتا ہے جب جی ڈی پی چار فیصد سے کم اور شرح سود دس فیصد سے زائد ہو تو یہ سمت درست نہیں ہوا کرتی۔

ایوان صدر اور گورنر ہاوس کھول دینے سے گھروں میں بجلی۔ گیس اور پانی کی لوڈ شیڈنگ کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی پانچویں سٹاک مارکیٹ سے دنیا کی بدترین کارکردگی والی پانچویں مارکیٹ بننے کے سفر کو اس وقت تک درست سمت نہیں کہا جا سکتا جب تک انتہائی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے میں مہارت حاصل نہ کر لیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ہماری سمت اسی وقت غلط ہو گئی تھی جب آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان میں حماقت اورسازش کی تھی۔

سابق دور کے حوالے سے اظہر عنایتی کا شعر پڑھا جاسکتا ہے۔

یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن

میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا

اور موجودہ دور کے حوالے سے اعجاز گل کا شعر بیان ہوسکتا ہے۔

قسمت کی خرابی ہے کہ جاتا ہوں غلط سمت

پڑتا ہے بیابان بیابان سے آگے

فرق صرف اتنا ہے کہ درمیان میں ایک آدھ خوشحالی کا جزیرہ بھی آجاتا ہے جسے ہم اپنے ہاتھ سے تباہ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مجھے اپنے اس یقین کا اظہار کرنا ہے کہ غلط سمت میں یہ سفر صرف ایک سیاسی جماعت والوں کو پیچھے نہیں لے جائے گا کہ جب گاڑی پہاڑ سے لڑھکنے لگتی ہے تو تمام مسافروں کو ساتھ لے کر لڑھکتی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک ہی بحری جہاز میں سوار ہوں۔ اس میں اپنے دشمنوں کو طاقت کے زور پر پیندے تک محدود کر کے وہاں سوراخ کر دیں اور امید رکھیں کہ صرف وہی ڈوبیں گے۔ آپ بچ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).