‘میں نے وزیرستان میں کیا دیکھا’


وزیرستان

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کے بعد معاملات زندگی کافی حد تک بحال ہوچکی ہے لیکن علاقے میں حالیہ دنوں میں ہدف بناکر قتل کے واقعات میں اضافے نے پھر سے وزیرستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

گذشتہ روز بی بی سی کی ایک ٹیم کے ہمراہ جب بنوں سے وزیرستان کے لیے روانہ ہوئے تو سب سے پہلے ہم سیدگئی چیک پوسٹ پہنچے جہاں سے شمالی وزیرستان کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں کبھی وزیرستان جانے کے لیے قبائل کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور مقامی افراد یہاں فرائض سرانجام دینے والے سکیورٹی اہلکاوں کے رویے سے بھی کافی نالاں ہوا کرتے تھے۔

چارسال بعد شمالی وزیرستان جانے کی اجازت

’فیلڈ میں کارروائی کر کے دل کو اطمینان ہوتا ہے‘

کیا وزیرستان ایک بار پھر شدت پسندی کی راہ پر؟

اس چیک پوسٹ پر پہلے طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ یہاں باقاعدہ اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا یا بعض اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ ناموں کے اندراج کے بعد وزیرستان جانے والے افراد کو اس دن واپس کرکے دوسرے دن آنے کا کہا جاتا تھا۔

وزیرستان

سیدگئی چیک پوسٹ سے صرف وہ افراد گزر سکتے تھے جن کا پہلے سے اندراج ہوچکا ہوتا یا جن کا تعلق وزیرستان سے ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ پاکستان کے کسی شہری کو یہاں سے آگے جانے کی اجازت حاصل نہیں تھی۔

اس طرح شدت پسندی اور جنگ کے مارے ہوئے وزیرستانیوں کو اس قسم کے مسائل سے بار بار گزرنا پڑتا تھا جبکہ ان پابندیوں کی وجہ سے وزیرستان تقریباً چار سالوں تک ملک کے دیگر حصوں سے بھی کٹا رہا۔

لیکن چیک پوسٹوں پر نرمی کے حالیہ اعلان کے بعد آج یہاں صورتحال بالکل مختلف نظر آئی۔ چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں نے ہم سے قومی شناختی کارڈ مانگا اور ناموں کے اندراج کے بعد ہمیں ایک پرچی تھما دی گئی جس میں ہماری گاڑی کا نمبر اور اس میں سوار تمام افراد کے کوائف درج تھے۔

وزیرستان

چیک پوسٹ سے ذرا آگے ایک اور سکیورٹی اہلکار نظر آئے جس نے ہم سے وہ پرچی لے کر ہمیں آگے جانے کا اشارہ کیا اور اس طرح ہم وزیرستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد صدر مقام میرانشاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

وزیرستان

سیدگئی سے میرانشاہ تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن پکی اور کشادہ سڑکوں کی وجہ سے ہم بغیر کسی روکاوٹ کے باآسانی وہاں پہنچ گئے۔ راستے میں میرانشاہ تک ہم تقریباً پانچ یا چھ چیک پوسٹوں سے گزرے ہوں گے جس میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں بھی تھیں اور ضلعی انتظامیہ کے ناکے بھی، لیکن ہم ہر چیک پوسٹ کے قریب پہنچ کر گاڑی کی رفتار کم کر دیتے کہ شاید ہماری تلاشی لی جائے گی لیکن روکنے سے پہلے ہی ہمیں آگے جانے کا اشارہ کیا جاتا اور اس طرح بغیر روکاٹ کے ہمارا سفر میرانشاہ پہنچ کر تمام ہوا۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد مجھے شمالی وزیرستان جانے کا دو مرتبہ اتفاق ہوا لیکن دونوں بار ہم سکیورٹی فورسز کے ہمراہ گئے جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ وہاں لوگ کس قسم کے مسائل سے دوچار ہیں۔

وزیرستان

لیکن آج پہلی مرتبہ ہم ایسی حالت میں وزیرستان جارہے تھے جب ہمیں کسی سرکاری اہلکار کی مدد حاصل تھی اور نہ کوئی خوف کی کیفیت تھی۔

شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز میرانشاہ جب پہنچے تو وہاں ہر جانب بازاروں میں رونق اور گہما گہمی نظر آئی۔ میرانشاہ میں آپریشن ضرب عضب کے دوران ہزاروں دوکانیں تباہ ہوئیں جبکہ بمباری کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اب علاقے میں تباہ شدہ مقامات پر نئی مارکیٹیں تعمیر کی گئیں ہیں جہاں کاروبار تو ہو رہا ہے لیکن سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں مندی کا شکار نظر آتی ہے۔

وہاں نو تعمیر شدہ دکانوں کی ملکیت بھی کچھ عرصے سے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے جہاں کئی افراد نے اس کی شکایت بھی کی۔

شمالی وزیرستان کے ایک سینیئر صحافی احسان داوڑ کا کہنا ہے کہ آپریشنز اور نقل مکانی کی وجہ سے بیشتر بڑے تاجروں نے اپنا سرمایہ بڑے شہروں میں منتقل کردیا تھا اور نامساعد حالات کے باعث وہ یہاں واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ چیک پوسٹوں پر نرمیوں کے اعلان کے بعد اب توقع کی جا رہی ہے کہ علاقے میں پھر سے تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کا امکان ہے۔

انھوں نے کہا کہ علاقے میں ایک مثالی امن تو قائم ہے لیکن دوسری طرف بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی ضرویات تباہ حالی کا شکار ہیں۔

وزیرستان

میرانشاہ پریس کلب میں موجود ایک اور سینیئر صحافی حاجی مجتبیٰ نے کہا کہ جب 24 گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی دستیاب ہو تو ایسے میں اپنے علاقوں کو واپس آنے والے افراد کیسے یہاں رہ سکیں گے اور ایسی صورتحال دیگر بنیادی ضروریات کی بھی ہے۔

وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد امن و امان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہوگئی تھی۔ تاہم حالیہ کچھ مہینوں میں وہاں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر سے اضافہ ہورہا تھا جس میں اب کسی حد تک پھر سے کمی تو آگئی ہے لیکن مقامی باشندوں کے مطابق یہ واقعات مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکے ہیں جس سے وزیرستانی پھر سے تشویش کا شکار نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp