تبدیلی ہم سے


کچھ چیزیں بظاہر ہمیں سکھائی نہیں جاتیں بلکہ لاشعوری طور ہم سیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ سیکھ دیرپا بھی ہوتی ہے اور ہماری عادت بھی بن جاتی ہے جیسے طالب علم کے لئے اس کا استاد آئیڈیل ہوتا ہے۔ استاد کی حرکات و سکنات اور عادات طلباء کے لئے سب سے مؤثر سیکھ ہوتی ہیں۔ اگر استاد کلاس میں دیر سے آئے، لیکچر میں ڈنڈی مارتے ہوئے وقت سے پہلے کلاس چھوڑ کے چلا جائے تو آپ اس استاد کے شاگردوں سے وقت کی پابندی کی امید نہ ہی رکھیں بلکہ طلباء لا شعوری طور پر ایسی چھوٹی موٹی بے ضابطگیوں کو اپنا حق جاننا اور جائز ماننا شروع کردیں گے جو ایک قوم کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی وجہ بنتی ہیں

اسی طرح کچھ خامیاں ہم میں ایسے رچ بس گئی ہیں کہ شاید ہمیں اب وہ خامیاں لگتی ہی نہیں اور انہیں یک دم سے دور کرنا بھی آسان نہیں ہے بلکہ ان کو دور کرنے کے لئے جہد مسلسل کرنا ہوگی۔ ایک اور خامی جو ہم میں ہے کہ ہم خود تبدیل ہوئے بغیر تبدیلی کے خواہاں ہیں اور محنت کرنے سے عاری ہیں۔ ہمارے استادِ محترم طنزیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر پکا پکایا حلوہ آپ کے منہ مبارک میں بھی ڈال دیا جائے تو آپ کی خواہش ہوگی کہ کاش کوئی ہمارے جبڑے بھی ہلاتا رہتا، شاید کچھ ایسا ہی حال ہماری قوم کا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی تبدیلی کی۔ تبدیلی سرکار حکومت میں ہے اور قوم خود تبدیل ہوئے بغیر تبدیلی کے ثمرات کی متلاشی ہے جو کہ بہت مشکل ہے۔

بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو عمران خان صاحب نے خود آکر ٹھیک نہیں کرنی بلکہ ہمیں خود اس تبدیلی کے لئے بیڑا اٹھانا ہوگا اور یوں کرنے سے انشاءاللہ دیکھتے ہی دیکھتے حقیقی تبدیلی ہم میں سرائیت کر جائے گی۔ چند بظاہر چھوٹی تبدیلیاں جو ہم خود اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں درج ہیں۔ ہم عہد کریں کہ وقت کی پابندی کریں گے دفاتر وقت پر پہنچیں گے، دفاتر کے اوقات میں دلجمعی سے کام کریں گے، محض دن گزار کر نہیں آئیں گے بلکہ اپنا کام اپنی تنخواہ اور عہدہ سے مطابقت رکھے گا۔

آو ہم عہد کریں کہ دوسروں کو اچھی ترغیب دیں گے، کسی کے خلاف ظلم ہوتا دیکھیں گے تو آنکھیں بند کر کے اپنے خلاف ایسے ہونے تک خاموش نہیں رہیں گے بلکہ مظلوم کی آواز بنیں گے۔ آؤ ہم عہد کریں کہ ہم سب کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آہیں گے، یقین مانیے اخلاق بہتر کرنے پر ایک دھیلا خرچ نہیں ہوگا لیکن لوگ آپ کی شخصیت کے داعی ضرور ہو جائیں گے۔ آؤ ہم عہد کریں کہ کبھی کسی سے ظلم و زیادتی نہ کریں گے اور اپنے خلاف ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے۔

آؤ ہم عہد کریں کہ ایک دوسرے کی آواز اور بازو بنیں گے۔ یقین مانیے تبدیلی تب تک بے معنی ہے کہ جب تک قوم کا ایک ایک فرد تبدیلی کا احساس کرتے ہوئے اپنا حصہ نہ ڈالے اور جس دن آپ اور میں نے تبدیلی کی ٹھان لی اس دن ہمیں عظیم قوم بننے سے کوئی نہ روک پائے گا اور ایسے آنے والی تبدیلی دیرپا بھی ہوگی اور مؤثر بھی۔ اور اگر ہم یونہی رہ کر تبدیلی کی راہ تکتے رہے تو تبدیلی نعروں میں ہی رہے گی اور چہروں کے بدلنے کے ساتھ چلی جائے گی۔ کیونکہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا تھا۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).