اونٹ کی پشت سے امریکہ کی یونیورسٹی تک کا سفر


ان کی عمر محض پانچ برس تھی جب پہلی بار روزگار کا بوجھ ان کے کندھوں پر پڑا۔ انھیں متحدہ عرب امارات لے جایا گیا جہاں وہ اونٹوں کی دوڑ میں شُتر سوار کا کام کرتے تھے۔

سرپٹ دوڑتے اونٹ کی پیٹھ پر سوار اس پانچ سالہ بچے کو اس کے عوض ماہانہ دس ہزار روپے ملتے تھے۔ وہ یہ پیسہ گھر والوں کو بھیج دیتا تھا۔ سنہ 1990 میں شاید یہ کافی رقم ہو گی، تاہم اسے کمانے میں اس کی جان جا سکتی تھی۔ اس کے سامنے اس کے دو دوست اونٹ سے گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثہ اسے بھی پیش آیا تاہم بات سر پر چوٹ سے ٹل گئی۔

یوں پانچ برس بیت گئے۔ سنہ 1995 میں اقوامِ متحدہ کے بچوں کے بین الاقوامی ادارے یونیسیف نے سینکڑوں شُتر سوار بچوں کو آزاد کروایا۔

زندہ بچ جانے والے خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھا۔ گھر واپس پاکستان کے ضلع رحیم یار خان لوٹا اور اس بار تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ معاشی حالات اب اس قابل نہ تھے کہ اس کا خرچ اٹھا پاتے۔ اس نے خود چھوٹے موٹے کام شروع کر دیے۔

گٹر صاف کرنے والوں کے ساتھ کام سے لے کر رکشہ چلانے تک اس نے تعلیم کے اخراجات اکٹھے کرنے کے لیے سب کچھ کیا۔

22 سالہ جدوجہد کے بعد سنہ 2017 میں یہ نوجوان امریکی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے انتہائی معتبر فیلو شپ پر امریکن یونیورسٹی کے واشنگٹن کالج آف لا پہنچ گیا۔

قانون اور انسانی حقوق کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گذشتہ برس وہ پاکستان واپس لوٹا اور اب ایسے بچوں کی تعلیم کے لیے کوشاں ہے جنھیں وہی حالات درپیش ہیں جن کا سامنا اسے خود کرنا پڑا تھا۔

پاکستان کی اقلیتی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا نام رمیش جے پال ہے۔ یہ انھی کی کہانی ہے۔

صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے چند کلومیٹر باہر لیاقت پور کے ایک گاؤں میں حال ہی میں ان کی کوششوں سے ہندو برادری کے بچوں کے لیے ایک ٹاٹ کا مختصر سا سکول قائم ہوا۔

چولستان کی ریت پر کھلی فضا میں قائم اسی سکول کے عقب میں بیٹھے بی بی سی سے گفتگو میں رمیش جے پال نے بتایا کہ انھیں ‘تعلیم حاصل کرنے کی لت عرب کے صحرا ہی اس وقت لگی جب ان سے شتر سواری کروائی جاتی تھی۔

‘میرے تعلیمی سلسلے میں کئی بار رکاوٹیں آئیں۔ مگر میں نے وقفوں میں ہی سہی، اسے جاری رکھا۔’

شتر سواری میں جان جانے کا خطرہ

سنہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں دس برس سے چھوٹی عمر کے بچوں کو اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ عرب ممالک میں ہونے والی ان روایتی دوڑوں میں اونٹ کی پشت پر سوار بچہ جتنا زیادہ روتا تھا، اونٹ اتنا تیز دورتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ شتر سوار کے لیے بچوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ اونٹوں کے امیر مالکان کو ایسے بچے دنیا کے نسبتاً پسماندہ علاقوں سے باآسانی مل جاتے تھے۔ بہاولپور، رحیم یار خان، خانیوال اور جنوبی پنجاب کے چند دیگر علاقے بھی ان میں شامل تھے۔

رمیش جے پال اپنے ایک بے روزگار ماموں کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کے شہر العین پہنچے۔ ان افراد کو آسانی سے نوکری دے دی جاتی تھی جو اپنے ساتھ دس برس سے چھوٹا بچہ لے آتے تھے۔

ان کے خاندان کے بھی مالی حالات خراب تھے۔ ‘مگر میری والدہ کو یہ امید تھی کہ بھائی کے ساتھ جا رہا ہے تو اس کا خیال رکھے گا۔ انھیں معلوم ہوتا کہ وہاں کیسے حالات ہیں تو شاید کبھی نہ بھیجتیں۔

‘صحرا کے عین بیچ ہم خیموں یا ٹین کے گھروں میں رہتے تھے۔ دن میں درجۂ حرارت 106 فارن ہائیٹ تک بھی چلا جاتا تھا اور سردیوں میں راتیں انتہائی ٹھنڈی ہوتی تھیں۔’

سردیوں میں علی الصبح چار بجے دوڑ کا آغاز ہوتا تھا۔ باقی دنوں میں انھیں اونٹوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتا تھی، ‘انھیں چارا ڈالنا، صفائی کرنا اور پھر مالش کرنا۔

‘دوڑ کے دوران ایک حادثے میں میرے سر میں چوٹ آئی، دس ٹانکے لگے۔ آج بھی اس کی وجہ سے سر میں درد اٹھتا ہے۔’

رمیش جے پال نے بتایا کہ کئی بار واپس پاکستان جانے کی ان کی کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ ان کا پاسپورٹ ان کے کفیل کے پاس جمع تھا۔

رمیش جےپال

پانچ برس بعد سنہ 1995 میں یونیسیف کی کوششوں سے اونٹوں کے دوڑوں میں بچوں کے استعمال پر پابندی کا اطلاق ہوا۔ سینکڑوں بچوں کو آزادی ملی۔ رمیش ان میں سے ایک تھے۔

تعلیم کا چسکہ

رمیش کے مطابق ان کا کفیل ‘ایک ان پڑھ اور اجڈ شخص تھا۔ اس کے مقابلے میں اس کا بھائی انتہائی پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا انسان تھا۔ اسی وجہ سے اس کی عزت تھی۔ لوگ اس کا احترام کرتے تھے۔

‘وہاں سے مجھے معلوم ہوا کہ انسان کی عزت تعلیم ہی سے ہے۔’

پاکستان واپسی پر رمیش کے گھر والوں نے انھیں سکول بھیجنا شروع کیا۔ ان کے والد ایک سرکاری محکمے میں معمولی ملازم تھے۔ ان کا کنبہ گاؤں سے نکل کر شہر میں دو کمروں کے ایک مکان میں مقیم تھا۔

معاشی حالات اتنے اچھے نہ تھے کہ ان کے والد باقی بچوں کے ساتھ ان کی تعلیم کے اخراجات بھی برادشت کر پاتے۔ نتیجتاً رمیش کو محنت مزدوری کرنا پڑی۔

‘میں نے غبارے بیچے، پتنگ بیچے، گٹر صاف کرنے والوں کے ساتھ کام کیا اور پھر کچھ عرصہ کرائے پر رکشہ بھی چلایا۔’

اس طرح وقفے وقفے سے پڑھتے ہوئے انھوں نے میٹرک کیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر تعلیم چھوٹ گئی۔ مزدوری کرنا پڑی۔ تاہم اس دوران انھوں نے کمپیوٹر سیکھ لیا۔ دو برس کے وقفے کے بعد تعلیم دوبارہ شروع کی تو بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈپلوما لیا اور پھر گریجویشن کر ڈالی۔

‘رکشہ چلا کر میں اپنی فیس وغیرہ اور دیگر اخراجات کے لیے پیسہ جمع کرتا تھا۔’ رمیش نے بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی سے پہلے سوشیالوجی اور پھر رُورل ڈویلپمنٹ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔

صحرا سے امریکہ تک کا سفر

تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے سماجی ترقی میں عملی کردار ادا کرنا شروع کیا۔ ایک مقامی سماجی تنظیم سے آغاز کے بعد سنہ 2008 میں انھوں نے دوستوں کی مدد سے ہرے راما فاؤنڈیشن آف پاکستان نامی ادارے کی بنیاد رکھی۔

‘مذہبی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے اگر کوئی قوم سب سے پیچھے تھی تو وہ پاکستان کی اقلیتی ہندو برادری تھی۔ انھیں امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ہرے راما فاؤنڈیشن کے ذریعے ہم نے نہ صرف ہندو بلکہ تمام پسماندہ طبقوں کی بہتری کے لیے کام کیا۔’

ان کا دعوٰی تھا کہ وہ ہندو میرج ایکٹ کے لکھنے والوں میں بھی شامل تھے۔ ‘ہندو برادری کے حقوق کے لیے میں نے پنجاب اسمبلی لاہور کے سامنے احتجاج کی قیادت تک کی ہے۔’

سوشل میڈیا کے ذریعے انھیں امریکی حکومت کے ہیوبرٹ ہمفری فیلوشب نامی پروگرام کے بارے میں پتہ چلا۔ ایم اے کی تعلیم کے ساتھ ان کا سماجی کاموں کا تجربہ کام آیا اور سنہ 2017 میں انھیں اس پروگرام کے لیے چن لیا گیا۔

اس پروگرام کے تحت ایک سخت مقابلے کے بعد پاکستان سے ہر برس مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چنیدہ افراد کو امریکہ میں رہائش اور مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم کا موقع دیا جاتا ہے۔

نو ماہ کے لیے وہ اپنی منتخب کردہ یونیورسٹی میں تعلیم لیتے ہیں۔ اس تعلیم کی حیثیت ڈگری کی نہیں ہوتی، تاہم تین ماہ انھیں اسی شعبے سے منسلک کسی ادارے کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

انگریزی کمزور ہونے کے وجہ سے رمیش نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے انگریزی کا کورس کیا جس کے بعد انھوں نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں امیریکن یونیورسٹی کے واشنگٹن کالج آف لا سے قانون اور انسانی حقوق کی تعلیم حاصل کی۔

‘اقلیتی برادری اور انتہائی پسماندہ علاقے سے نکل کر میں تعلیم کے لیے امریکہ تک پہنچ جاؤں گا، ایسا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔’

ان کا خیال ہے کہ امریکہ میں گزارے گئے وقت اور وہاں کی تعلیم نے انھیں اُن تمام تر مہارتوں سے لیس کر دیا ہے جن کو استعمال کر کے وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

رحیم یار خان میں اپنے گھر کو رمیش نے مزید کشادہ کر لیا ہے۔ وہ دن میں سٹیٹ لائف آف پاکستان میں ملازمت کرتے ہیں اور فارغ وقت میں سماجی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔

‘پہلے متحدہ عرب امارات اور پھر امریکہ میں رہ کر مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آج کے جدید دور میں تعلیم ہی سب سے اہم ہتھیار ہے۔’

رمیش جےپال

امریکہ سے واپسی پر مختلف تنظیموں کی امداد اور ہندو برادری کی کوششوں سے انھوں نے ضلع رحیم یار خان کی تین تحصیلوں میں ہندو بچوں کے لیے چھوٹے سکول قائم کیے ہیں۔

دو درجن کے لگ بھگ شاگردوں پر مشتمل ان سکولوں میں محض ایک استاد ہوتا ہے اور بچے زمین پر بیٹھتے ہیں۔ رمیش جے پال کا کہنا تھا کہ ‘کم از کم اس طرح بچے تعلیم حاصل تو کر رہے تھے۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹے گا تو نہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ان کا مشن ہے کہ سنہ 2020 تک وہ پاکستان بھر میں ایسے سو سے زائد سکول قائم کر پائیں۔

ابتدائی خوش قسمتی کے بعد رمیش جے پال آج جہاں کھڑے ہیں ان کا کہنا ہے یہ زندگی انھوں نے محنت سے استوار کی ہے۔ مستقبل میں وہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں بھی حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp