چنگیز خان، عمران خان اور شیشے کا ورلڈ کپ


انیس سو بانوے میں گڈو چوتھی جماعت کا طالب علم تھا یوں تو وہ محض نو سال کا ہی تھا لیکن وہ اپنے آپ کو بہت بڑا اور عقلمند سمجھنے لگا تھا۔ پڑہائی میں بھی میں بھی مناسب تھا اس لیے اس کے کرکٹ کے شوق پہ کوئی پابندی عائد نہیں تھی ۔ دادا اور ابا دونوں ہی اس کے لیے کھیل کا سامان لاتے ۔ یہ ورلڈ کپ یوں بھی اس کی زندگی کا پہلا ورلڈ کپ تھا ۔ اس سے پہلے والا ورلڈ کپ اس کی یاداشت میں نہیں تھا۔
لیکن اس برس اس نے بہت مشکل سے ورلڈ کپ کے چند میچ دیکھے، آسٹریلیا اور پاکستان میں وقت کا فرق اس قدر کہ ٹائم میچ نہ ہوتے ۔
ان دونوں رمضان بھی تھے ، جب گڈو کی آپا ہر گیند پہ چیخ مارتین تو وہ جاگ کر کچھ دیر ہی میچ دیکھ پاتا اور پھر دوبارہ اس وقت جاگتا جب کوئی وکٹ گرتی یا چھکا لگتا اور گڈو کی آپا خوشی یا غمی میں چیخ مارتیں۔ رمضان کی وجہ سے اسکول بھی سویرے ہی لگ جاتے تو اسے اسکول میں کرکٹ کی تازہ خبریں سننے کو مل جاتیں۔
جس روز ورلڈ کپ کا فائنل تھا وہ بہت خوش تھا کیونکہ سب ہی خوش تھے۔ ہر طرف شور مچا ہوا تھا۔ پاکستان کی ٹیم میچ جیت گئی سب پلکوں کو جھپکانا بھول کے ورلڈ کپ ٹرافی کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن اس لمحے گڈو بہت حیران تھا کہ یہ شیشے کا کپ اگر ہاتھ سے گر گیا تو کیا ہو گا؟
کہیں ورلڈ کپ واپس تو نہیں چلا جائے گا؟
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا عمران خان کا بحثیت کپتان وہ آخری کھیل تھا، اور آج وہ ورلڈ کپ جیت گیا تھا۔ گڈو نے اپنے ابا اور دادا سے ضد شروع کی کے اسے بھی شیشے کا ورلڈ کپ چاہیے۔ بہت مشکل سے کافی تلاش کے بعد گڈو کے دادا شیشے کا گلوب خرید لائے ۔ اس زور گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب ہوئی جس میں گڈو کو ٹرافی دی گئی۔ گڈو شیشے کا گلوب لیے گلی میں اپنے دوستوں کو دکھانے گیا سب ہی بچے حیرت و حسرت سے گڈو کی ٹرافی دیکھتے رہے ، اس دن سے آج شام تک وہ ٹرافی شوکیس میں رکھی تھی۔
ورلڈ کپ ٹرافی گڈو کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی ۔ اپنے چھوٹے بھائی کو وہ کبھی بھی اس ٹرافی کو چھونے نہ دیتا ۔ جب وہ نویں جماعت میں تھا تو ان دنوں نئی نئی پی ٹی آئی پیدا ہوئی ۔ جب اسکول کے بچوں نے بتایا کہ آج اس کے محلے میں عمران خان آ رہا ہے۔ گڈو ان دس لوگوں میں شامل تھا جو خالی تمبو میں بیٹھے عمران خان کو عقیدت سے دیکھ رہے تھے۔
وقت تیزی سے گزارا گڈو تحریک میں جی جان سے لگا رہا ، دھرنے میں کراچی سے گیا دو ماہ تک اسلام آباد میں سردی کھاتا رہا۔ نوٹوں پہ گو نواز گو لکھ کر تصویریں لگاتا ۔ اس کو لگتا کہ تحریک اس کے جسم میں موجود حرارت کا سبب ہے۔ آخر کار پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کو تبدیلی کی آمد کا دن تھا۔ گڈو نے رضاکارانہ طور پر اپنے علاقے کے سب ہی لوگوں کو پولنگ اسٹیشنز تک چھوڑا ۔
انیسویں سو بانوے سے دسمبر دو ہزار اٹھارہ تک گڈو کے لیے عمران خان اور تحریک انصاف ، خدا مذہب اور پوری دنیا ہی تھے ۔ گڈو کے دادا نے ستر سال پہلے چائے کی پتی کی ہول سیل مارکیٹ میں دکان کھولی ۔ دادا کے بعد ابا اور اب گڈو بھی ابا کے ساتھ کاروبار میں جڑ گیا تھا۔ زندگی میں سکھ ہی سکھ تھا ۔
جب ایک صبح اچانک شور مچا کہ بازار خالی کرو سرکاری مشنری آ گئی ہے سب کچھ گرا دیں گی۔ تین گھنٹے کا نوٹس ہے۔ ہر دکان میں ہڑبونگ سب ہی کہ پیرؤں تلے زمین نکل گئی، گڈو اور اس کے ابا اپنے ملازمین کے ساتھ چائے کی پتی کی بوریاں سمیٹنے لگے ابھی چند ہی بوریاں دکان سے باہر آئی تھیں کہ سرکاری مشنری نے پوری مارکیٹ کو زمین بوس کر دیا۔
سب ہی حیرت اور حسرت سے سب کچھ تباہ ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اس شام جب وہ گھر آرہے تھے تو ابا کی جگہ گڈو اسکوٹر چلا رہا تھا وہ دونوں خاموشی سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنے ابا کے پاس کھانے کا کہنے گیا تو آبا رو رہے تھے ، یہ پہلا موقع تھا جب اس نے ابا کو روتے دیکھا۔ اس کا دل ڈوب گیا ۔
اس رات کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ رات دو بجے اماں کے رونے کی آواز آئی۔ سب ہی ابا کی طرف دوڑے۔ دل کا دورہ پڑا تھا، جناح کارڈیو میں ابا اڈیمٹ تھے اور سب ایک دوسرے کو خوف زدہ ہوکر دیکھ رہے تھے۔
اس رات گڈو نہیں سویا ساری رات وہ سوچتا رہا ، اسے لگا جیسے اس کی زندگی ختم ہو رہی ہے ، اور پوری زندگی ضائع ہوئی۔
اس کے کانوں میں مسلسل چنگیز خان کے وہ جملے گونج رہے تھے جو اس نے کبھی پی ٹی وی پر رپییٹ ٹیلی کاسٹ میں آخری چٹان میں سنے تھے ۔ ” میں تمہارے اوپر خدا کا عذاب ہوں۔ اگر تم اتنے بڑے گناہ نا کرتے تو خدا تم پہ اتنی بڑی مصیبت بھی نہ بھیجتا”
صبح کہ قریب گڈو کی آنکھ لگ گئی جب اس کی نیند ٹوٹی تو سب سے پہلے اس نے شوکیس کھولا اپنا ورلڈ کپ نکالا اور زمین پہ پٹخا ، گلوب نہ ٹوٹا زمین پر لڑھک گیا ۔ گڈو نے اپنا پرانا مضبوط بلا شوکیس سے نکالا اور ورلڈ کپ پہ برساتا رہا ، یہاں تک کہ گلوب کے ساتھ ساتھ بلا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).