ڈونکی کنگ اور میرا خواب


رات کو ڈونکی کنگ دیکھنے کے بعد ذہن میں بے شمار منگو تیرنے لگے۔ مگر مجھے متاثر ایک جملے نے کیا تھا جو منگو کے مرحوم والد نے کہا تھا کہ ”بیٹا خواب تو سچ ہونے کے لئے ہی دیکھے جاتے ہیں“

تب ہی میرے ذہن میں میرا خواب چمکنے لگا اور اس کے چاروں طرف امید کے چراغ ہی چراغ تھے۔ اور بیچ میں سونے کے پلیٹ میں ”نشہ سے پاک معاشرہ کا خواب“۔

مگر اچانک دھڑاک سے دروازہ کھلا اور ابا جان حواس باختگی سے ایسے کمرے میں داخل ہوئے جیسے اشتہاری دہشتگرد ہوں اور اس کے پیچھے لگی ہو انڈین موویز کی خطرناک پولیس۔ خیر جوں ہی داخل ہوئے چرس کا ٹکڑا مجھے پکڑایا اور اسے کہیں زمین میں دبا دینے کا کہہ گئے اور خود کمبل اوڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگے۔

میں شدید پریشان کہ یا اللہ اس پہ کون سی وہی نازل ہوگئی کہ ”سارے جہاں سے اچھا یہ چرس ہمارا“ کہنے والے آج اسی چرس کو کہیں ٹھکانے کا کہہ رہے اور یوں مجرموں کی طرح گھر میں داخل ہونا اور چھپنا؟
میں مخبوط الحواس بس اتنا ہی کہہ سکا اباجی خیر؟

تو ابا جی فرمانے لگے بیٹا غضب ہوگیا۔ شہر کے سارے شراب خانے بند، چرس اور ہیرون بیچنے والے سبھی اسمگلر پسِ زنداں ڈال دیے گئے۔ نشہ کیا نشہ کی پرچھائیں کے قریب بھٹکنے والا کوئی بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے محفوظ نہیں، تمام سیاستدان پولیس کے ساتھ بذات خود اس پکڑ دھکڑ میں شامل ہیں۔ کیا مافیاز، کیا سینڈیکٹس سبھی ایک ہی بے رحمی کے لاٹھی سے ہانکے جارہے ہیں۔ مسجدوں میں ترکِ دنیا نہیں بلکہ ترک نشہ کے وعظ ہورہے ہیں۔ منہ کھلا میں اباجان کو دیکھ رہا تھا جو کب کے سوچکے تھے۔

جب میں حواس درست کرکے باہر نکلا تو عجیب منظر دیکھا، محلے کی جس مسجد میں، میں چند نفوس کے ساتھ نماز کو جاتا تھا آج اسی رستے پہ گہماگہمی تھی۔ سلیم چرسی، وحید کِرش، ناگمان ہیرونی سب ہاتھ میں تسبیح لئے، سر پہ ٹوپی پہنے متقی ہوگئے تھے۔ میرا سر فخر سے اونچا ہوگیا کہ دیکھ میرے ووٹ کی طاقت، دیکھ قائدین شہر کی نیک نیتی، دیکھ اس ملک کے ایماندار محافظین کو۔ دل کر رہا تھا چلا چلا کر سب کو کہہ دوں کہ خواب تو سچ ہونے کے لئے ہی دیکھے جاتے ہیں۔ اپنے ابو کو بھی کہ آپ روز روز میرے خوابوں، میری امیدوں کا تمسخر اڑاتے تھے۔ یہ دیکھو میرا خواب۔

تب خوشی سے سرشار بازار گیا تو نوجوانوں کا ایک جمگھٹا دیکھنے کو ملا جو کہہ رہے تھے کہ نشہ مٹاؤ تحریک زندہ باد اور مٹھائیاں بانٹ رہے تھے تب ایک دوست ملا اور کہا ”یار صادق ادھر کیوں کھڑے ہیں چلو جیل چلتے ہیں آج سبھی گاڈ فادروں کا یومِ حساب ہے“۔

جب جیل پہنچے اور جو منظر دیکھا تو یقینا یہ میرے آنسو ہی تھے جو سرد گالوں پہ گرم سانپ کی طرح بلکاتے رینگتے بہہ رہے تھے۔
دوسری طرف چرس، شراب، کرسٹل اور ہیروئن کی جلتے ڈھیر سے اٹھنے والے آگ کے روشن لپکوں مجھے روشن مستقبل دِکھ رہی تھی۔

میں پرامید گھر کو لوٹنے ہی والا تھا کہ ماں کے زور زور تھپکی اور صادق بیٹا، صادق بیٹا کی آوازوں نے مجھے جگا دیا۔ اور کہہ رہی تھی کہ ”بیٹا آج پڑھانے نہیں جانا کیا“ تو یک دم جیسے میں اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی نشے سے پاک معاشرے کو دیکھنے کی چاہ میں کمرے سے باہر نکلا کہ برامدے میں چارپائی پہ بیٹھے اباجی کو چرس کے مسحورکن کش لیتے دیکھا اور ناک سے نکلنے والے دھوِئیں کے مرغولے اتنے ہی کالے مستقبل کی تصویر پیش کررہے تھے۔ اور ہمیشہ سے میرے خوابوں پہ معترض اباجی فرمانے لگے ”بیٹا! لگتا ہے پھر سے کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟ ۔ اور پھر خود ہی میری خاموشی کا اور اپنے سوال کا جواب دیا کہ اور کر ہی کیا سکتے ہو؟
زندگی میں پہلی بار ابو سے اتفاق کرنے کو دل چاہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).