شیخ السندھ شیخ ایاز


میں نے یہ لقب شیخ ایاز کو اس لئے دیا کہ کہ ان کے دل کی دھڑکنوں کی تال بھٹائی کی وائی کے سر سے بندھی ہے۔ سندھو دریا ان کے لاشعور میں بہتا ہے اور ان کا شعور اس کی لہروں کی طرح وقت کے ساحل پر اپنے ہو نے کی مہر ثبت کر تا جاتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں میں سندھ کی ریت بھر کے وہاں کے دکھوں پر آنسو بہاتے ہے۔ سندھو دریا پر چل کر آنے والی ہوا انہیں محبوب کی سانسوں سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ سندھ کا ہو کر بھی دنیا کے ان تمام انسانوں کے خواب راستوں کے ہم سفر ہیں جن کی منزل امن و انصاف پر مبنی ایسا معاشرہ ہے جس میں انسان بلا تمیز مذہب و ملت، بلا تفریقِ رنگ و نسل و جنس، ایک مکمل زندگی گزار سکے۔

اسی لئے وہ مجھے عزیز ہیں اور میں اس خواب میں یہ اضافہ بھی کر نا چاہوں گی کہ ایسا معاشرہ جس میں انسان ہی نہیں، ہر ذی جان بلکہ فطرت کی ہر شکل اپنے آفاقی توازن کے ساتھ ہستی کے مکمل وجود کا حصہ بن سکے۔ ایسا معاشرہ جس میں حیوانات، نباتات اور جمادات، ہواؤ ں اور پانیوں کو بھی لالچ سے اندھے انسان کے شر سے پناہ مل جائے۔ اور یہ بھی کہتی چلوں کہ یہ صرف خواب ہی نہیں بلکہ ہم تاریخ کے جس مقام پر آ پہنچے ہیں وہاں ہماری بقا کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ بچا ہے۔

کوئی بھی آفاقی پیغام اور پیغامبر کسی ایک خطہ، ملک یا زبان کے پنجرہ میں بند کر دینے والی مخلوق نہیں ہوتا۔ ایسی ہستی پوری انسانیت کا ورثہ ہوتی ہے اور یہ تمام ذی شعور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس ورثہ کو عوام الناس تک جو اس کے اصلی وارث ہیں پہنچانے کا فرض مسلسل ادا کر تے رہیں۔ میں اس موقع پر شیخ ایاز کی شخصیت اور ان کے ادبی ورثہ پرسندھ میں ہو نے والی حالیہ کانفرنس کے انعقاد کے لئے ان تمام اہلِ قلم اور شایقین علم وفن کو مبارکباد پیش کر تی ہوں جنہوں نے یہ خدمت انجام دی۔

میرا تعلق پنجاب سے ہے اور مجھے سندھی زبان کی شد بد نہیں۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستانی نظام تعلیم کو صوبائی زبانیں تو دور کی بات اپنی مادری زبانوں سے بھی دور رکھا گیا ہے جو کہ ابتدائی تعلیم کا ایک لازمہ ہے۔ ہمارے نصاب اتنے نامکمل ہیں کہ ہمیں اپنے علاقوں کے اہل قلم کی اطلاع بھی کہیں اور سے ملتی ہے۔ اس صورت حال میں عوام کو تو چھوڑئیے طالب علم بھی بنگلہ، سندھی، بلوچی اور پختون اہل قلم کے ناموں تک سے آشنائی حاصل نہیں کر سکتے۔

اس صورت حال میں تھوڑا بہت جو ملا وہ ذاتی کوشش اور تراجم کے ذریعے ملا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نثر کا ترجمہ تو کسی حد تک ہو سکتا ہے مگر شاعری کا ترجمہ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ شاعری صرف لفظ نہیں بلکی وہ انفرادی اظہار ہے جو صدیوں کے اجتماعی معاشرتی رویوں، جذبوں اور تخیل کے ست میں

انجذ اب کے بعد شعر کے پیکر میں ڈھلتاہے۔ ترجمہ کی گرفت میں لفظ آسکتے ہیں لیکن کسی معاشرے کی زبان کا مخصوص مزاج، جذبات اور واردات قلبی اور خصوصاً شعریت کا پکڑ میں آنا تقریباً ناممکن ہے۔ پھر بھی آج کے ٰعالمی دور میں ترجمہ کا کام مختلف زبانوں کے علم و ادب کی ترسیل کا ذریعہ ہے۔

بہت سے عظیم قلم کار ترجمہ کے ذریعہ ابلاغ سے بہ ہمہ وجوہ محروم ہیں۔ شیخ ایاز ان چند خوش قسمت لکھنے والوں میں سے ہیں جن کی زندگی میں ہی ان کا کلام پنجا بی، اردو، گجراتی، ہندی، مراٹھی، بنگالی، جرمن، یونانی، روسی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو نا شروع ہو گیا تھا۔ اردو کے تراجم میں بہت سے احباب نے حصہ لیا خصوصاً کرن سنگھ، فہمیدہ ریاض، ابرہیم جویو، شان الحق حقی، آصف فرخی، شاہ محمد پیر زادہ، الیاس عشقی اور انور سن رائے وغیرہ وغیرہ۔ سنا ہے کہ جناب حمایت علی شاعر نے شیخ ایاز کے فن و ادب پر کتاب لکھی تھی مگر وہ لوگوں تک نہیں پہنچ پائی۔

شیخ ایاز کے کلام کے ساتھ بھی پاکستان میں وہی سلوک ہوا جو باقی علاقائی زبانوں اور ان کے ادب اور ادیبوں کے ساتھ ہو رہا ہے جس کا اظہار میں پہلے کر چکی ہوں یعنی یہ کہ اسے قومی اور معاشرتی شعور کا حصہ بننے نہیں دیا گیا۔ اجتماعی شعور کی بات تو ایک طرف علاقائی زبانوں کے بولنے والوں سے تو ان کا افتخار تک یہ تصور دے کر چھین لیا گیا کہ ان کی زبان اردو سے کمتر اور غیر مہذب ہے۔ حا لانکہ زبان صرف زبان ہوتی ہے اور اس کی قیمت اس کا ادبی ورثہ طے کر تا ہے متبادل زبان نہیں اور پاکستان کی ساری علاقائی زبانیں اردو سے زیادہ پرانی اور ادبی ورثے سے مالا مال ہیں۔

اور پھر یہ کون سے صحیفہ میں لکھا ہے کہ ایک سے زیادہ قومی زبانیں نہیں ہو سکتیں یا انسان ایک سے زیادہ زبانیں نہیں سیکھ سکتا۔ انسان تو کہلاتا ہی حیوانِ ناطق ہے۔ انسان جو زبان ایجاد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ماہرین لسانیات کے مطابق بہت سی زبانیں سیکھ سکتاہے۔ آپ سوچ رہے ہو ں گے میں پاکستانی علاقائی زبانوں کا نوحہ کیوں لکھ رہی ہوں وہ یوں کہ یہ ایک ملک میں رہتے ہو ئے، ایک دوسرے سے اجنبی ہوجانے کا، نفرتوں کا اور کمزور عوام پر طاقتور کے احکامات مسلط کر نے کا اور دھوکہ دہی کا نوحہ ہے۔

یہاں مجھے شیخ ایاز کی ایک تقریر کا اقتباس یاد آرہا ہے جو یکم دسمبر 1967 ء ”سندھی شام“ نام سے ایک مشاعرے کے خطبہ صدارت کے طور پر کی گئی تھی:

”قوم زبان کا اشتراک، زمین کا اشتراک اور معاش کا اشتراک بھی ہے اور اس اشتراک میں انسانوں کی نفسیاتی ساخت کی یکسانی بھی ہے۔ محض ریاست، قوم کی تخلیق نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی سطحی سرکاری انتظام اس کی تعمیر کر سکتا ہے۔ قوم فقط انسانی گروہ بندی نہیں اور نہ ہی ہجوم کی تعداد اور اس کے عارضی اتحاد پر مشتمل ہے“۔

[ تقریر، ترجمہ بشیر عنوان، فکرِ ایاز، ترتیب آصف فرخی، محمد پیر زادہ، صفحہ 277 ]

اس حقیقت کو سر براہان پاکستان خوب سمجھتے تھے اس کے باوجود علاقائی مادری زبانوں کو قابل التفات نہ سمجھنا اور عوام کو ایک دوسرے کی زبان سے نا آشنا رکھنا عوام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا نا قابل معافی عمل ہے۔

ایسے نامساعد حالات میں سندھ کی خوش قسمتی پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی معاشرتی اور ادبی پہچان کی حفاظت کی بلکہ سندھی زبان میں شیخ ایاز جیسا عظیم ادیب اور شاعر پیدا کیا جس نے نہ صرف سندھ کی قدیم ادبی روایت کو اپنے عصر کا تازہ خون دے کر توانا تر کیا بلکہ ہم سب کے لئے سمت کا تعین بھی کر گیا۔

میں اس مضمون میں شیخ ایاز کی تخلیقی کاوشات پر گفتگو نہیں کروں گی اور سچ تو یہ ہے کہ ان کی وسعت تخلیق کسی ایک مضمون میں سما بھی نہیں سکتی۔ لیکن میں آپ کو وہ حوالے ضرور دوں گی جن سے ان کی شخصیت کے وہ مخصوص پہلو سامنے آجائیں جنہوں نے ان کے شعر و ادب کے خد و خال ڈھالے۔

اس ہمہ جہت قلم کار نے غزل، پابند، آزاد اور نثری نظم اور منظوم ڈرامے لکھے، افسانے لکھے، آپ بیتی اور جگ بیتی کہی، ادبی خطوط لکھے، تخلیقی معیار کے تراجم کئَے، سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر مضمون لکھے، تقاریر کیں اور انٹرویوز دیے۔ اردو اور سندھی دونوں زبانوں کو پورے عبور کے ساتھ برتا۔ انہیں اوائل عمری سے ہی مطالعے کا شوق تھا اور زندگی بھر نہ صرف برصغیر کی زبانوں کے اعلی ادب سے بلکہ مغربی دنیا کے ادب اور ادبی تحریکوں سے بھی پوری طرح فیضیاب ہوئے۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک کسب علم اور تخلیق کر تے چلے گئے۔

75 سال کی عمر میں ان کی زندگی تمام ہوئی۔ موت کے وقت ان کی 60 کے قریب کتابیں شائع ہو چکی تھیں اور 15 کتابوں کے مسودے اشاعت کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے اپنا تخلیقی عمل اپنی معاشی، عائلی، سیاسی مصروفیتوں اور بار بار قید و بند کی مشقتیں جھیلتے ہوئے بھی جاری رکھا۔ وہ ایک کامیاب وکیل، سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، عملی سیاست کے حصہ دار، ایک شوہر، باپ اور ایک دوست کیا کیا نہیں تھے مگر ان کی سب سے بڑی پہچان سندھ کی دھرتی تھی۔ وہ سب سے پہلے سندھ کے بیٹا تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2