پاکستان کے قومی مغالطے


عقل و دانش سے مسائل حل کرنا انسانی خصلت ہے۔ انسانی فکر ازل سے ہی ارتقاء سے گزر رہا ہے، انسان بنیادی اساسی اُصولوں کو پیش نظر رکھ کر سماجی ترقی کی نئی نئی تاویلیں کرتا ہے فلسفہ و سائنس میں نئے نظریات اور نئی ایجادات اسی تسلسل کا نتیجہ ہیں۔ علم، فکر، یا سوچ بچار میں مختلف طریقہ ہائے فکر رائج ہیں، انداز فکر یا پھر مباحثوں میں انسان التباس ﴿وہم﴾ یعنی فریب دہی سے بھی بسا اوقات کام لیتا ہے لیکن اس کا ادراک دیگر انسانوں کو بمشکل ہوتا ہے تاہم درست نظریہ رکھنے والے افراد التباس سے بچنے کے لیے تصدیق کا سہارا لیتے ہیں یوں تصدیق ہونے پر غلط ادراک یعنی التباس کے بجائے صحیح علم حاصل ہوتا ہے۔

اگر ارد گرد علمی و فکری ماحول ہو تو لوگ دلائل سے بات کرتے ہیں چنانچہ گفتگو کے دوران منطق کا کوئی قاعدہ ٹوٹ جائے تو مغالطہ جنم لیتا ہے۔ مغالطہ لفظی یا فکری نوعیت کی ایسی خوابیدہ غلطی کو کہتے ہیں جو بظاہر نطر نہیں آتی اس لیے ایسی غلطیاں جو نظر نہ آرہی ہوں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں گویا مغالطے میں منطقی و فکری اُصولوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے غلط اور بے معنی استدلال کو بھی مغالطہ کہتے ہیں۔ چونکہ مغالطے استدلال کی غلطیاں ہوتے ہیں لہذا یہ ان اُصول و ضوابط کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں جو صحیح استدلال کے لیے نہایت ضروری اور لازمی ہوتے ہیں۔

غلطیوں اور دھوکے سے بچنے کے لیے مغالطوں کو جاننا ضروری ہے۔ مغالطے دوسروں کی پیدا کردہ غلطیاں ہوتے ہیں ان سے بچنے کے لیے ان کا تجزیہ، مشاہدہ اور مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ مغالطہ چونکہ تحریر و تقریر میں چھپا ہوتا ہے اس لیے اس کا پتہ وہی شخص لگا سکتا ہے جو مغالطوں کا مطالعہ کر کے اس کا صحیح علم رکھتا ہو گا، مغالطوں کا مفہوم جانتا ہوگا، مغالطوں کا جاننا دراصل دوسروں کی غلطیوں اور تحریر و تقریر میں جھوٹ و غلط بیانی اور حقائق سے منافی استدلال کا پتہ لگانا ہے۔

ہمارے یہاں سیاستدان اور تحریکیں چلانے والے مغالطوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ میکاؤلی اپن کتاب دی پرنس میں لکھتا ہے کہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے قوم کے سیاستدان ہمیشہ پُرفریب نعروں کا سہارا لیتے ہیں دراصل ان نعروں کی حقیقت نہیں ہوتی اور یہ مغالطوں پر مبنی ہوتے ہیں اور عوامی جذبات کو مغالطوں کے ذریعے سے اپیل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ؛

اؤ مظلوم مزدوروإ تم کب تک خواب خرگوش میں سو ئے رہو گے؟ تم کب تک ظالم سرمایہ داروں کو اپنے حقوق آزادی کچلنے دو گے؟ تم کب تک اپنے بھوکے، پیاسے اور ننگے بچوں کو اس مظلومی کی حالت میں دیکھتے رہو گے؟ کیا تمہارے اندر خون نہیں ہے إ کیا تمہارے خون میں جوش نہیں ہے؟ اٹھو ان محلات کو آگ لگا دو، اُٹھو ان کارخانوں کو جلا دو۔

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
یہ فیکڑیاں تمہاری ہیں، لیکن تم اور تمہاری اولاد کپڑے کو ترستی ہے، آگے بڑھو، آگے بڑھو۔

اس طرح کے جذباتی نعروں سے بھری مغالطوں پر مبنی تقریر کا اگر تجزیہ کیا جائے تو حقیقت کچھ نہیں ہوتی، محض لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا ہے اور سیاسی رہنما الیکشن جیت جاتا ہے۔ احساس میں جب شدت پیدا ہوتی ہے تو ہیجان پیدا ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ احساس کی شدید حالت ہیجانی حالت ہوتی ہے اور ہیجانی کیفیت میں دلائل اور صحیح علم کی بنیاد کے بجائے شدت سے مدد لی جاتی ہے، اصل علمی اور فکری دلائل کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ ہیجانی کیفیت میں جب مغالطہ کو مزید شدت دی جاتی ہے تو پھر حب الوطنی یا پھر مذہب کے مخصوص جذبات پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ مغالطہ میں مخفی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔

افلاطون کے مطابق، لوگوں کی طرح وہ دلائل جو عموما غلط دعوؤں پر مبنی ہوں مغالطہ کی بہترین بلکہ عمدہ مثال ہے۔

مغالطہ پیدا کرنا اور پھر قوم کو اس مغالطے میں مبتلا کرنا ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ کے ذریعے سے مخصوص نظریات و عقائد عوام میں پیدا کیے جاتے ہیں پھر عوام اُس درجہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے مشاہدوں سے وہ تمام امور خارج کر دیتے ہیں جو ان کے عقائد و نظریات کے خلاف ہوں، بسا اوقات ان عقائد کو عام شخص ایمان کا درجہ سمجھتا ہے۔ تاریخ سے ہم اس کی متعدد مثالیں حاصل کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں پہلی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے نفاذ نظام مصطفیٰ کی تحریک چلائی گئی اور عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ نو ستاروں کی اس تحریک کا مقصد ملک سے لادینیت کا خاتمہ ہے اور شریعت محمدی کا نفاذ ہے۔ اس پیدا کردہ مغالطہ میں سیاستدانوں کا مذہب کا پُر کشش نعرہ لگا کر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دیا اور پھر آمریت کے سائے تلے آ گئے، نظام تو نہ بدل سکا لیکن جمہوریت کا خاتمہ ہوگیا اور اس تاریخی مغالطے نے پاکستان کو جہاد افغانستان کی دلدل میں پھینک دیا گویا جب قوم اجتماعی مغالطے کا شکار ہوئی تو آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے۔

دوسری مثال عدلیہ بحالی تحریک کی لیجئیے۔ کیا ہوا آمر مشرف نے حکومت اُلٹی پھر چیف جسٹس ہٹایا رد عمل میں عوامی سطح پر مغالطہ پیدا کر کے تحریک چلائی گئی، عدلیہ بحالی تحریک میں نظام عدل کو بدلنے کے بھی نعرے لگے۔ افتخار چوہدری بحال ہوئے، ریٹائرڈ ہوگئے لیکن عدل کے نام پر پیدا کردہ مغالطوں کو محض مغالطے ہی رہنے دیا گیا۔ اس عدلیہ بحالی میں نواز شریف لاہور سے لانگ مارچ لے کر نکلے، مارچ ختم ہوا، عدلیہ بحال ہوگئی، نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے اور جو مغالطہ پیدا کیا گیا اُسے اقتدار میں آتے ہی دفنا دیا گیا۔

پاکستان میں تازہ ترین مغالطہ اسٹیبلشمنٹ اور رد اسٹیبلشمنٹ کا ہے جسے نواز شریف نے مخصوص دانشوروں کے گروہ سے پیدا کیا اور اس نئے مغالطوں پر مبنی انتخابی نعرے لانچ کیے گئے جس میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ سوشل میڈیا پر مقبول ہوا، الیکشن میں متعدد سیٹیں جیتے لیکن اکثریت نہ مل سکی تو یہ مغالطہ اب باقی زندہ رکھنا بھی ضروری ٹھہرا۔ اس مغالطے کو بھی سائنسی اصولوں کے تحت استوار کیا گیا، جس کا تحلیل و تجزیہ کرنا مغالطوں میں شامل جھوٹ کی آمیزش اور سچائی کا ادراک کرنے کے مترادف ہے۔

نواز شریف ہوں یا پھر پیپلز پارٹی نے عوامی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو چیلنج کرنے کا پیغام دیا لیکن دلچسپ امر ہے کہ جب پیپلز پارٹی یا نواز لیگ برسر اقتدار ہوں تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی بات تو درکنار ان کا نام تک نہیں لیتے بلکہ دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ جب اقتدار چلا جائے تو پھر مغالطوں کی بنیاد پر اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں۔

سیاسی تاریخ میں حقائق کبھی چھپائے نہیں جا سکتے بس فرق صرف اتنا ہے کہ سچائی کو مخصوص انداز میں استوار کر کے اس میں مغالطے کی آمیزش کر دی جاتی ہے جو عین سچائی نظر آتی ہے۔ سیاست میں جب مغالطے قومی ذہن میں سرایت کر جائیں تو پھر سرمایہ داریت، فرقہ واریت، معاشی بدحالی، بد امنی، شدت پسندی، آزادی جیسے سوالات کو اُٹھانے کی بجائے ایسے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں جن کا تعلق قومی مسئلہ حل کرنے کی بجائے سسٹم کے سٹیٹس کو کا نفاذ باقی رکھنا ہوتا ہے کیونکہ اس میں مغالطوں کو پیدا کرنے والے کی بقاء پنہاں ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).