عمران خان سے ہی اختلاف کیوں؟


اختلاف اور تنقید ہمیشہ مؤقف پر ہونی چاہیے۔ یا پھر کسی سیاسی جماعت کے منشور یا حکومتی پالیسیوں پر تنقید ہونی چاہیے۔ یا کسی کے اجتماعی عمل پر تنقید ہوسکتی ہے۔ یا کسی ایسے فرد کے ذاتی نظریات پر تنقید ہوگی جو کسی کا نام یا شناخت اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہو جس کا تعلق اجتماعی ملکیت یا اجتماعی شناخت سے ہو۔ شخصیت پر تنقید کبھی نہیں ہوتی نہ ہی شخصیت موضوعِ تنقید ہے۔ دوسری اہم بات تنقید کوئی برا عمل نہیں ہے اگر تنقید دلیل کے ساتھ ہو تو بہتری کے امکانات زیادہ ہیں۔

ویسے بھی مشہور مقولہ ہے کہ کوئی بھی نظریہ، جماعت یا پالیسی جب زیرِ بحث نہیں آتی تو اس کا مطلب ہے لوگوں میں اس کی اہمیت نہیں رہی۔ جس چیز کی اہمیت ہوتی ہے وہ لازما زیرِ بحث آتی ہے۔ اس بحث کے نتیجہ میں پھر ہوتا یوں ہے کہ کچھ لوگ اس کے حق میں بولتے اور لکھتے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتے ہیں اگر اکثریت حق میں کھڑی ہوگئی تو مؤقف کی تائید ہوجاتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی نظریہ کی سیاسی موت اس وقت ہوتی ہے جب لوگ اس جماعت یا نظریے پر بات کرنا چھوڑ دیں تو وہ جماعت اور نظریہ اپنی وقعت آہستہ آہستہ کھونے لگتا ہے۔

ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ شخصیت زیرِ بحث نہ آئے۔ پھر بھی تقاضائے بشریت اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دوڑیں لگی ہوئی ہیں یقینا کبھی کبھار ہم نے بھی ایسی بات لکھ دی ہو جس کا تعلق کسی شخصیت کے ہو۔ مگر جیسے ہی کسی دوست نے توجہ دلائی تو کسی قسم کا عار محسوس کیے بغیر ہم نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔ اصل موضوع پر بات کرتے ہیں جو عمران خان سے اختلاف یا پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کا ہے جو اس تحریر کا حقیقی مقصود ہے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں عنران خان پر تنقید نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ فردِ واحد ہے۔ ان دوستوں کو بتاتا چلوں کہ اب خان صاحب فردِ واحد نہیں رہے بلکہ وہ ایک ملک اور قوم کے نمائندہ ہیں۔ اس کی ہر بات ہر عمل پاکستان کی نمائندگی ہے اور پاکستان صرف عمران خان یا پی ٹی آئی کا نہیں ہے اس میں اور بھی شہری ہیں جو پاکستان کی ہر چیز پر اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا عمران خان کا ہے۔ ایسی صورتحال کے پیشِ نظر اگر پی ٹی آئی کوئی غلط پالیسی بنائے گی تنقید تو ہوگی۔

یہ بات بھی غلط ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت پر تنقید بے جا ہے۔ موجودہ حکومت پر تنقید کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔ پہلی وجہ خان صاحب نے الیکشن سے پہلے قوم سے جو وعدے کیے تھے اقتدار میں آتے ہی یوٹرن کی نظر ہوگئے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ عمران خان یوٹرن لیتا پھرے بلکہ اس منشور پر دیا تھا جو الیکشن کے وقت قوم کو بتایا گیا۔ مگر پی ٹی آئی اقتدار میں آتے ہی اپنے منشور پر یوٹرن لینے لگی۔

دوسری بڑی وجہ ریاستِ مدینہ کا نعرہ ہے ریاستِ مدینہ صرف عمران خان کا نعرہ نہیں نہ ہی پی ٹی آئی کا پیش کردہ نظام ہے۔ ریاستِ مدینہ کے ساتھ پوری امت کے جذبات جڑے ہوئے ہیں اور یہ اجتماعی مقصد ہے۔ اگر کوئی بھی جماعت اجتماعی مقصد کا نعرہ لگاتی ہے تو اس جماعت کو اجتماعی مقصد پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا بھی ہونا چاہیے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری صاحب نے ریاست مدینہ میں شراب کی پابندی کو سستی شہرت کا نام دے کر مذاق اڑانا شروع کردیا۔

حالانکہ سب جانتے ہیں شراب اسلام میں حرام ہے اور ریاست مدینہ شریعت کے نفاذ کے لئے وجود میں آئی تھی۔ اس کے علاوہ قادیانی جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کی شق 3 کے تحت غیر مسلم قرار پاچکے ہیں یورپ میں ان سے جاکر ملاقاتیں کرنا ریاست مدینہ کے مؤقف کو مشکوک بنانا ہے۔ مزید فواد چوہدری کا نئے سینما بنانا اور بھارتی فلموں کی ملکی سینما میں تشہیر بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یقینا آپ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ ان سب مسائل پر تنقید تو بے جا ہے۔ بالکل درست ہے تنقید نہ ہوتی اگر یہ سب پی ٹی آئی اپنے ذاتی منشور پر کرتی۔ اگر پی ٹی آئی ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر یہ سب نہ کرتی تو شاید اس قدر تنقید نہ ہوتی۔ پھر تو لوگ ان کاموں کو محض تحریک انصاف کا منشور سمجھ کر تنقید کرتے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک اجتماعی مقصد اجتماعی شناخت کا نعرہ لگا کر ایسے کام کرنا جن کی وجہ سے اجتماعی مقصد اور شناخت کو نقصان پہنچے اس پر تنقید بنتی ہے۔

عمران خان آگر کہہ دے کہ آج کے بعد ہم جو بھی کریں گے اپنی پارٹی کا منشور سمجھ کر کریں گے ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگا کر نہیں۔ اور خان صاحب کو صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہیے کہ ہمیں مجبورا کچھ ایسے فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں جن کا ریاست مدینہ سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ہم یہ فیصلے کریں گے کیونکہ ان مشکل حالات میں ایسے ہی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ آج کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا ادے پی ٹی آئی کا منشور سمجھا جائے نہ کہ ریاست مدینہ کے اصول۔

پھر چاہے عمران خان پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی بات کرے یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خواہش کا اظہار کرے کرتا پھرے۔ اگر عوام کو خان صاحب کی بات میں دلیل نظر آئی تو وہ مان لینگے بصورت دیگر مسترد کردیں گے۔ اگر اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے اپنے فیصلے پر عمل کرنا ہی ہوا تو عوام بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یا تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر عمران خان کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے۔

مجھے تو پی ٹی آئی کے ان کھلاڑیوں کی سوچ پر حیرت ہوتی ہے جو آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ تنقید کوٹ لکھپت کے قیدی پر ہونی چاہیے یا پھر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ فی الحقیقت ایسا نہیں ہوتا تنقید ہمیشہ ان پر ہوتی ہے جن کے پاس اقتدار ہوتا ہے۔ اور اس وقت اقتدار پی ٹی آئی کے پاس ہی ہے تو تنقید بھی پی ٹی آئی پر ہی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).