اینٹی کرپشن تعویذ


ایک ملک میں ہلا مچا کہ بَھرِشٹاچار بہت پھیل گیا ہے۔

راجا نے ایک دن درباریوں سے کہا: ”پرجا بہت ہلا مچا رہی ہے کہ سب جگہ بَھرِشٹاچار پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں تو آج تک کہیں نہیں دِکھا۔ اگر تم لوگوں نے دیکھا ہو تو بتاؤ“۔

درباریوں بے کہا: ”جب حضور کو نہیں دِکھا، تو ہمیں کیسے دِکھ سکتا ہے؟ “

راجا نے کہا: ”نہیں! ایسا نہیں ہے۔ کبھی کبھی جو مجھے نہیں دکھائی دیتا، وہ تمہیں تو دکھائی دیتا ہو گا۔ جیسے مجھے برے سپنے نہیں دِکھتے، پر تمھیں تو دکھائی دیتے ہوں گے۔ “

درباریوں نے کہا: ”جی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر وہ تو سپنوں کی بات ہے۔ “

راجا نے کہا: ”پھر بھی تم لوگ پورے ملک میں ڈھونڈھ کر دیکھو کہ کہیں بَھرِشٹاچار تو نہیں۔ اگر میں مل جائے تو ہمارے دیکھنے کے لیے نمونہ لیتے آنا۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ کیسا ہوتا ہے۔ “

ایک درباری نے کہا: ”حضور! وہ ہمیں دکھائی نہیں دے گا، سنا ہے بہت باریک ہوتا ہے۔ ہماری آنکھیں آپ کی عظمت دیکھنے کی اتنی عادی ہو گئی ہیں کہ اب ہمیں باریک چیزیں نہیں دکھائی دیتیں۔ اگر ہمیں بَھرِشٹاچار دِکھا بھی تو اس میں سے آپ ہی کی شبیہ نظر آئے گی۔ کیونکہ ہماری آنکھوں میں تو بس آپ کی ہی صورت بسی ہے۔ لیکن آپ کی اس سلطنت میں ایک جاتی رہتی ہے جسے ’وِشیشگ‘ کہتے ہیں۔ اس جاتی کے پاس کچھ ایسا کاجل ہے کہ اسے آنکھوں میں لگا کر وہ باریک سے باریک چیز بھی دیکھ لیتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے اُن ’وِشیشگیوں‘ کو ہی حضور بھرشٹاچار ڈھونڈے کا کام سونپیں۔ “

راجا نے ’وِشیشگیوں‘ کے پانچ آدمی بلائے اور کہا: ”سنا ہے، ہمارے ملک میں بھرشٹاچار ہے۔ پر وہ کہاں ہے یہ پتا نہیں چلتا۔ تم لوگ اس کا پتہ لگاؤ۔ اگر مل جائے تو پکڑ کر ہمارے پاس لے آنا۔ اگر بہت زیادہ ہوا تو نمونے کے لیے تھوڑا سا لے آنا۔ “

’وِشیشگیوں‘ نے اسی دن سے چھان بین شروع کر دی۔ دو مہینے بعد وہ پھر دربار میں حاضر ہوئے۔

راجا نے پوچھا: ”وِشیشگیوں! تمہاری جانچ پوری ہو گئی؟ “

”جی سرکار“۔

”کیا تمہیں بھرشٹاچار ملا؟ “

”جی بہت سا ملا“

راجا نے ہاتھ بڑھایا۔ ”لاؤ مجھے بتاؤ۔ دیکھوں کیسا ہوتا ہے“۔

’وِشیشگیوں‘ نے کہا: ”حضور! وہ ہاتھ کی پکڑ میں نہیں آتا۔ وہ اپنا کوئی مادی قالب نہیں رکھتا۔ اسے نہ تو چھوہا جا سکتا ہے اور نہ ہی آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ “

راجا سوچ میں پڑ گئے۔ بولے : ”وِشیشگیوں! تم کہتے ہو کہ اس کا مادی وجود نہیں، نہ چھو سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، یہ گُن تو ایشور کے ہیں۔ تو کیا بھرشٹاچار ایشور ہے؟ “

وِشیشگیوں نے کہا: ”ہاں، مہاراج! اب بھرشٹاچار ایشور ہو گیا ہے۔ “

ایک درباری نے کہا: ”پر وہ ہے کہاں؟ کیسے محسوس ہوتا ہے؟ “

وِشیشگیوں نے جواب دیا: ”وہ ہر جگہ ہے۔ اس محل میں بھی ہے۔ وہ مہاراج کے سِنگھاسن میں ہے۔ “

”سِنگھاسن میں ہے“ کہہ کر راجا صاحب اچھل کر دور کھڑے ہو گئے۔

وِشیشگیوں نے کہا: ”ہاں، سرکار سِنگھاسن میں ہے۔ پچھلے ماہ اس سِنگھاسن پر رنگ کیے جانے کے سلسلے میں جو بِل پیش کیا گیا، وہ جعلی تھا۔ وہ دراصل لاگت سے دوگنے دام کا تھا۔ آدھا پیسا بیچ والے کھا گئے۔ آپ کی پوری سلطنت میں بھرشٹاچار ہے اور وہ رشوت کے روپ میں ہے۔ “

’وِشیشگیوں‘ کی یہ بات سن کر راجا بہت چِنتِت ہوئے اور درباریوں کے کان کھڑے ہوئے۔

راجا نے کہا: ”یہ تو بڑی چِنتا کی بات ہے۔ ہم بھرشٹاچار بالکل مٹانا ہیں۔ وِشیشگیوں تم بتا سکتے ہو کہ وہ کیسے مٹ سکتا ہے؟ “

وِشیشگیوں نے کہا: ”ہاں، مہاراج! ہم نے اس کی بھی یوجنا تیار کی ہے۔ بھرشٹاچار مٹانے کے لیے مہاراج کو بہت سے کام کرنے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ بھرشٹاچار کے موقعے مٹانے ہوں گے۔ جیسے ٹھیکا ہے تو ٹھیکیدار ہے اور ٹھیکیدار ہے تو ملازموں کے رشوت ہے۔ ٹھیکا مٹ جائے تو اس کی رشوت مٹ جائے۔ کس وجہ سے آدمی رشوت لیتا ہے، اس کے بارے میں بھی جانا جائے۔ “

راجا نے کہا: ”اچھا، تم اپنی پوری رپورٹ رکھ جاؤ۔ ہم اور ہمارا دربار، اس پر وِچار کریں گے۔ “

’وِشیشگ‘ چلے گئے۔ راجا اور درباریوں نے بھرشٹاچار مٹانے کی تجاویز پر مشتمل رپورٹ کو پڑھا۔ اس پر وِچار کیا۔

اسی سوچ وِچار میں دن بیتنے لگے اور راجا کی حالت بگڑنے لگی۔

ایک دن ایک درباری نے کہا: ”مہاراج! چِنتا کی وجہ سے آپ کی صحت بگڑتی جا رہی ہے۔ اُن وِشیشگیوں نے تو آپ کو کس جھنجھٹ میں ڈال دیا ہے۔ “

راجا نے کہا: ”ہاں، مجھے رات کو نیند میں آتی۔ “

دوسرا درباری بولا: ”ایسی رپورٹ کو آگ کے حوالے کر دینا چاہیے جس سے مہاراج کی نیند میں خلل پڑے۔ “

راجا نے کہا: ”پر کریں تو کیا کریں؟ تم لوگوں نے بھی بھرشٹاچار مٹانے کی اس رپورٹ کو پڑھا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا اسے کام میں لانا چاہیے؟ “

درباریوں نے کہا: ”مہاراج! وہ رپورٹ کیا ہے، ایک اچھی خاصی مصیبت ہے۔ اس کی وجہ سے نجانے کتنے الٹ پھیر کرنے پڑیں گے۔ کتنی پریشانی ہو گی۔ سارا سسٹم الٹ پلٹ ہو کے رہ جائے گا۔ جو چلا آ رہا ہے اسے بدلنے سے نئی نئی مشکلیں پیدا ہوں گی۔ ہمیں تو کوئی ایسا طریقہ چاہیے کہ جس سے بنا کوئی الٹ پھیر کیے بھرشٹاچار مٹ جائے۔ “

راجا صاحب بولے : ”میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ پر یہ ہو گا کیسے؟ ہمارے پِتا جی کو تو جادو آتا تھا، ہمیں وہ بھی نہیں آتا۔ تم لوگ ہی کوئی اُپائے کھوجو۔ “

ایک دن درباریوں نے راجا کے سامنے ایک ’سادھو‘ کو پیش کیا اور کہا: ”مہاراج! ایک گُپھا میں تپسیا کرتے ہوئے اس مہان سادھو کو ہم لے آئے ہیں۔ انھوں نے ’سداچار کا تعویذ ‘ بنایا ہے۔ وہ منتروں سے بنایا گیا ہے اور اس کو باندھنے سے آدمی ایک دم ’سداچاری‘ ہو جاتا ہے۔ “

سادھو نے اپنے تھیلے میں سے ایک تعویذ نکال کر راجا کو دیا۔ راجا نے اسے دیکھا۔ بولے : ”سادھو! اس تعویذ کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتاؤ۔ اس سے آدمی سداچاری (نیک) کیسے ہو جاتا ہے؟ “

سادھو نے سمجھایا: ”بھرشٹاچار اور سداچار آدمی کی آتما میں ہوتے ہیں، باہر نہیں ہوتے۔ ایشور جب آدمی کو بناتا ہے تو کسی کی آتما میں ایمان کی کیل فٹ کر دیتا ہے اور کسی کی آتما میں بے ایمانی کی۔ اس کیل میں سے ایمان یا بے ایمانی کے بول نکلتے ہیں جنھیں ’آتما کی پکار‘ کہتے ہیں۔ آتما کی پکار کے بنیاد پر ہی آدمی ہر کام کرتا ہے۔ دقت یہ ہے کہ جن کی آتما سے بے ایمانی کے بول نکلتے ہوں، انھیں دبا کر ایمان کے بول کیسے نکالے جائیں۔ میں کئی سالوں سے اس پر کام کرتا رہا ہوں اور آخر میں نے یہ سداچار کا تعویذ بنایا ہے۔ جس آدمی کے بازو پر یہ تعویذ بندھا ہو گا وہ سداچاری ہو جائے گا۔

میں نے کتوں پر بھی یہ تعویذ آزمایا ہے۔ یہ تعویذ اس کے گلے میں باندھ دینے سے وہ روٹی نہیں چراتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تعویذ میں سے بھی سداچار کے بول نکلتے ہیں۔ جب کسی کی آتما بے ایمانی کے بول نکالنے لگتی ہے تب اس تعویذ کی شکتی، آتما کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور آدمی کو تعویذ میں سے ایمان داری کے بول سنائی پڑتے ہیں۔ وہ ان بولوں کو آتما کی پکار سمجھ کر سداچار کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہی اس تعویذ کا گُن ہے۔ ”

دربار میں ہلچل مچ گئی۔ درباری اٹھ اٹھ کر تعویذ کو دیکھنے لگے۔

راجا نے خوش ہو کر کہا: ”مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری سلطنت میں ایسے چمتکاری سادھو بھی ہیں۔ مہاتما! ہم آپ کے بہت احسان مند ہیں کہ آپ نے ہماری مشکل آسان کر دی۔ ہم بھرشٹاچار سے بہت پریشان تھے۔ لیکن ہمیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں تعویذ چاہیں۔ ہم حکومت کی طرف سے تعویذ بنانے کے لیے ایک کارخانہ کھولے دیتے ہیں۔ آپ اس کے جنرل منیجر بن جائیں اور اپنی دیکھ ریکھ میں بَڑھیا تعویذ بنائیں۔ “

ایک منتری جی بولے : ”مہاراج! حکومت کیوں جھنجھٹ میں پڑے؟ میری رائے تو یہ ہے کہ سادھو بابا کو ٹھیکا دے دیا جائے۔ وہ خود تعویذ بنا بنا کر حکومت کو سپلائی کر دیں گے۔ “

راجا کو یہ تجویز پسند آئی۔ سادھو کو تعویذ بنانے کا ٹھیکا مل گیا۔ اسی وقت انھیں پانچ کروڑ روپے کارخانہ کھولنے کے لیے پیشگی مل گئے۔ ملک کے اخباروں میں خبریں چھپیں۔ ’سداچار کے تعویذ کی کھوج! تعویذ بنانے کا کارخانہ کھلا‘ ۔

لاکھوں تعویذ بنائے گئے۔ ملک کے ہر سرکاری ملازم کے بازو پر ایک ایک تعویذ باندھ دیا گیا۔ بھرشٹاچار کی سَمسِیا کا ایسا آسان حل نکل آنے پر راجا اور درباریوں بہت خوش تھے۔

ایک دن راجا کا تجسس بیدار ہوا۔ سوچا: ”دیکھیں تو کہ یہ تعویذ کسیے کام کرتا ہے۔ “

وہ بھیس بدل کر ایک سرکاری دفتر میں میں پہنچ گئے۔ اس دن مہینے کی دو تاریخ تھی۔ ایک دن پہلے تنخواہ ملی تھی۔ وہ ایک ملازم کے پاس گئے اور اسے اپنا کام بتا کر سو روپے کا نوٹ دینے لگے۔

ملازم نے انھیں ڈانٹا: ”بھاگ جاؤ یہاں سے۔ رشوت لینا پاپ ہے۔ “

راجا صاحب بہت خوش ہوئے کہ تعویذ نے اس ملازم کو ایمان دار بنا دیا یے۔

کچھ دنوں بعد وہ پھر بھیس بدل کر اسی سرکاری ملازم کے پاس گئے۔ اس دن مہینے کا آخری دن تھا۔ راجا نے پھر سے سو کا نوٹ دکھایا اور جو اس نے لے کر جیب میں ڈال لیا۔

راجا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بولے : ”میں تمھارا راجا ہوں۔ کیا تم آج ’سداچار کا تعویذ ‘ باندھ کر نہیں آئے؟ “

”باندھا ہے سرکار، یہ دیکھیے! “

اس نے اپنی آستین چڑھا کر تعویذ دکھا دیا۔ راجا صاحب بہت متعجب ہوئے۔ ”مگر ایسا کیسے ممکن ہے؟ “ انھوں نے تعویذ پر کان لگا کر سنا۔ تعویذ میں سے یہ بول نکل رہے تھے ”ارے، آج اکتیس ہے۔ آج تو لے لے۔ “

(ہندی لکھاری ’ہریشنکر پارسائی‘ کی کہانی ’سداچار کا تعویذ ‘ میں قدرے تغییر کے ساتھ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).