زبان کی بازیافت


زبان کسی بھی تہذیب کے لئے بنیادی جزو کی اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کے رسوم و رواج، عقائد و اقدار اور رویوں کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے لئے اس کی زبان کو سمجھنا لازم ہے۔ زبان مختلف علامتوں سے متصل ایک مکمل نظام ہے جو ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور آپس میں گفتگو کر سکیں۔ اس کے علاوہ زبان نسل در نسل تہذیبی اقدار کی منتقلی کا بھی ذریعہ ہے۔ فنِ تحریر کے سینۂ قرطاس پر آنے سے قبل ثقافت کی منتقلی کا سارا انحصار آپسی بول چال پر ہی تھا۔

لوک داستانیں اور مقامی کہاوتیں اس کی مثالیں ہیں۔ آج بھی بہت سی اقداراور دانش کی باتیں جو تحریری طور پر اگر ہمیں نہ بھی ملیں تو آپسی بول چال کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ زبان کسی بھی قوم اور گروہ کی شناخت کا بھی لازمی جزو ہے۔ اسی لئے ہم سب کا اجتماعی شعور، اظہار کا پیرائیہ اور خیال کی بنت بھی زبان ہی کی رہین منت ہے۔ اسی لئے زبان کا بھی اب ایک سماجی ادارے کو طور پر مطالعہ کیا جاتا ہے۔ SapirWhorf ”“ کے مشہور تھیسز کے مطابق لوگ زبان ہی کی عینک سے دنیا کو دیکھتے اور اپنی فکر و شعور کے زاویوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ اب تو اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ ہم زبان نہیں بولتے بلکہ زبان ہمارے ذریعے بولتی ہے۔ خیر یہ بحث پھر کبھی سہی۔

فی الوقت مندرجہ بالا سطور کا مقصد زبان کی اہمیت پر بحث کرنا تھا۔ آج اگر اپنے ملک میں اپنی قومی زبان اور مقامی زبانوں کی حالتِ زبوں دیکھتا ہوں تو کفِ افسوس مَلنے کو جی چاہتا ہے۔ قومی زبان پر تو اکثر ہم بات کرتے اور لکھتے رہتے ہیں مگر آج یہاں میرا مقصد مقامی زبانوں کا نو حہ لکھنا ہے۔ اس میں بالخصوص اگر بات کروں تو ہماری مادری زبان پنجابی بالکل ناپید ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دوسری مقامی زبانوں یعنی سندھی، پشتو، بلوچی، گلگتی اور باقی زبانوں کو دیکھا جائے تو آج بھی وہاں بچے کو گھر میں مادری زبان ہی سکھائی جاتی ہے بلکہ اندرونِ سندھ میں تو سندھی زبان میری معلومات کے مطابق بارہویں جماعت تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

آج بھی پنجاب میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگ اپنی مادری زبانیں روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ لیکن جو اصل ظلم پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اس سب کا آغاز ہمارے گھروں سے ہی ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے گھروں میں بچے کو انگریزی سکھانا ورنہ اردو سکھانا تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور پنجابی سکھانے کو بد تمیزی تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی ہمارا انسان کو پرکھنے کا کلیہ یہ ہے کہ اگر انگریزی بولتا ہے تو سبحان اللہ، اردو بولتا ہے تو کم از کم پڑھا لکھا ہے اور اگر پنجابی بول رہا ہے تو اجڈ، بد تمیز اور گنوار دیہاتی ہے۔

اس سب کے تانے بانے نو آبادیاتی تعلیمی نظام اور طبقاتی تعلیمی نظام سے متصل ہیں۔ ہمارے طبقہ بالا سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر بچے تو انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں ان کے لئے یہ ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے کہ آپسی بول چال بھی اپنی مادری یا قومی زبان میں کریں۔ اس لئے ان کا تو مکمل اظہار کا پیرائیہ اور سوچ ایک خاص سمت میں متعین کی جاتی ہے۔ ان سے بات کرتے وقت جب کسی اردو یا پنجابی لفظ کا معنی انگریزی میں بتانا پڑتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

ان کے لئے انگریزی ثقافت اور زبان اتنی عام کر دی جاتی ہیں کہ جب وہ اپنی مقامی ثقافت کے کسی اچھے پہلو کو دیکھتے ہیں تو خو د بھی پرائے کو اپنانے کے رجحان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نچلے طبقے کے لئے اول تو اس دوڑ میں آنا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ اس چیز کا سب سے زیادہ شکار درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کے طالب علم ہیں جن کی مادری زبان پنجابی ہے، بولتے وہ اردو ہیں اور انگریزی سیکھنے کے پیچھے پاگل ہیں۔ اپنے طبقے سے ترقی پا کر اوپے جانے کا خوبصورت خواب دیکھنے والے اس طبقے کے لئے انگریزی زبان واحد ترقی کی ضامن ہے۔ نہ انھیں پنجابی ٹھیک سے آتی ہے، نہ اردو اور نہ انگریزی۔ ان کی حالت دیکھ کر محسن کا شعر یاد آتا ہے کہ

کیوں ان دنوں سوار ہے دو کشتیوں پہ دل
چاہت اک اجنبی کی تو اک آشنا کا دکھ

ہماری پوری تہذیب کو نو آبادیاتی اور ما بعد نوآبادیاتی نظام کے ذریعے یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ میرا اپنا دکھ بھی ڈیرک والکوٹ جیسا ہے کہ اپنی مادری زبان صحیح معنوں میں بولنے اور لکھنے سے قاصر ہوں اور سامراجی زبان کے الفاظ استعمال کرنے پہ مجبو ر ہوں۔ میں بھی ایک اجنبی تہذیب کا قیدی ہوں اور میری شناخت بھی یر غمال ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی بازیابی کیونکرممکن ہے؟ اس کے اندر مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں۔ اختصار کی غرض سے دو لوگوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

پہلا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ مکمل طور پر تمام علوم کو مقامی رنگ میں تشکیل دیا جائے اور انگریزی زبان کو مکمل چھوڑ دیا جائے۔ اس نقطہ نظر کے بڑے حامیوں میں کینیا کے مشہور ادیب اور ادبی نقاد گوگی وانتیونگو کا ذکر آتا ہے۔ جس نے انگریزی میں لکھتے لکھتے اپنی مقامی زبان گیکویو کی طرف مراجعت کر لی۔ اپنی مشہور تصنیف
(Decolonizing the mind 1986 )
میں اس نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ انگریزی زبان افریقہ کے لئے ایک ”ثقافتی بم“ ثابت ہوئی ہے جس نے قبل از نوآبادیاتی تہذیب و تاریخ کی یادداشت کو مٹا کر ہمارے ذہنوں کو مکمل جکڑ لیا ہے۔ اس لئے گیکویو میں لکھنا اپنی تہذیب و شعور اور اپنی انفرادیت کو بازیاب کروانے اور محفوظ کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے نزدیک زبان تہذیب کا جزو لاینفک ہے اس لئے زبان کی تباہی پوری تہذیب کی تباہی ہے۔

دوسرا نقطہ نظریہ ہے سامراج سے ان کی ہی زبان میں بات کر کے مزاحمت کی جائے۔ اس کے حامیوں میں سلمان رشدی کا نام بھی آتا ہے جن کے مطابق انگریزی زبان کو مزاحمت کے طور پر استعمال کر کے مابعد نوآبادیاتی خطوط پر تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک ”انگریزی کو اپنے تجربات کے مطابق تشکیل دینا اور فتح کرنا اپنے آپ کو آزاد کرنے کے عمل کے مصداق ہے۔ “ لیکن یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ انگریزی اس قیمت پر سیکھنا کہ مقامی زبانوں کو مکمل چھوڑ دیا جائے، کیوں ضروری ہے؟

اگر کوئی زبان سیکھی بھی جائے تو اس کی قیمت ہمیں یہ چکانی پڑے کہ اپنی زبان سے بالکل نابلد رہا جائے۔ آج کے طالب علم کے لئے زبان ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صحیح مطالعہ کر پاتا ہے اور نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔ کیا وہ قومیں جنہوں نے اپنی تہذیبی روایات اور زبان کو نہیں چھوڑا آج ترقی یافتہ نہیں؟ فرق صرف یہ ہے کہ ہم آج آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں۔ فرانسیسی افسانہ نگار الفانسے دودے اپنی مشہور کہانی دی لاسٹ لیسن میں ایک جملہ لکھتا ہے کہ
”جب لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے تو جتنا زیادہ اپنی زبان سے جڑے رہتے ہیں ان کے پاس اپنی قید کی کنجی موجود رہتی ہے“

ہم اپنی کنجی گنوا رہے ہیں۔ ہم وہ قیدی ہیں جنہیں اپنی بیڑیوں اور یرغمالیوں سے محبت ہو گئی ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرا کام مسئلے کا حل پیش کرنا نہیں بلکہ آپ کے سامنے طالب علمانہ طور پر سوال اٹھا نا ہے۔ ان سوالات اور اس تحریر کا بار آپ کو سونپتا ہوں۔ آخر میں عمیر نجمی کے ایک خوبصورت شعر کے ساتھ اختتام کروں گا۔

نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).