وہ اپنی بچی کو مارنا نہیں چاہتی تھی


شام کو ڈاکٹر صاحبہ سے ملا تو انہوں نے کہا کہ ہاں بچّہ ہونے کے بعد تھوڑی بہت ڈپریشن ہوتی ہے، کوئی خاص بات نہیں ہے بالکل فکر مت کریں۔ ٹھیک ہوجائے گی آپ کی بیوی۔ ایسا بہت سی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے کوئی خطرہ نہیں ہے لے آئیے گا جب چھ ہفتے ہوجائیں، میں دیکھ لوں گی۔ بس ذرا توّجہ دیں۔ وقت دیں اسے شوہر لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے اصل میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پندرہ سو روپے فیس مجھے دینے کا کوئی افسوس نہیں ہے، افسوس تو یہ ہے کہ کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا انہوں نے کہ وقت دیں اسے وقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں انہیں کیسے بتاتا کہ وقت تو انہوں نے نہیں دیا میری بات نہیں سنی، نہ یہ سمجھا کہ میں اس کی ویران آنکھوں کے بارے میں کیا بتارہا ہوں، نہ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے چند ہفتوں کی بچّی کو ڈانٹ رہی ہے ماررہی ہے، وقت تو انہوں نے دینا تھا، وقت مجھ سے مانگ رہی ہیں ارے میں تو جان دے دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بغیر کسی فیس کے۔ کاش یہ سب کچھ میں کہہ سکتا۔

اس رات اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے کانوں میں آوازیں آتی ہیں کہ وہ رنڈی ہے، طوائف ہے، ملیچھہ ہے، گندی ہے، کوئی بار بار بولتا ہے اس کے کانوں میں۔
”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی کنول کو کوئی نقصان پہنچادوں گی، کچھ کرو رفیق۔ اس کا خیال رکھنا وہ ہماری بچّی ہے، تمہاری بیٹی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ وہ بار بار ایک بات کو دھرارہی تھی۔

اس کے بازوؤں میں تعویذ بندھا ہوا تھا اور اس کے چہرے کی وحشت سے مجھے خوف آیا۔ مجھے آج تک افسوس ہے، سخت افسوس کہ سارے حمل کے دوران ایک ایک دن میں انٹرنیٹ کھول کر ماں اور بچّے کے متعلق پڑھتا رہا، سمجھتا رہا لیکن نہ جانے کیوں حمل کے بعد کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں، میں نے کچھ نہیں سمجھنے کی کوشش کی۔ صرف اُس جاہل اور لالچی گائناکولوجسٹ سے ملا جسے نارمل ڈلیوری اور سیزیرین سکشن کے آگے شاید کچھ پتہ نہیں تھا۔

میں نے اسے سمجھایا کہ نہیں سیما کوئی ماں اپنے بچّے کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے تم ٹھیک ہو یہ صرف بے کار کی آوازیں ہیں اب تو باجی نے یہ تعویذ بھی پہنادیا ہے، تم بالکل ٹھیک ہوجاؤگی۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کل سے چھٹی لے لوں گا۔ تمہارے ساتھ رہوں گا فکر نہ کرو۔

”ہاں تم کل سے آفس مت جانا۔ میرے ساتھ رہنا ہماری بچّی کے ساتھ۔ کبھی کبھی میرا دل کہتا ہے کہ اس بچّی کو مجھ سے نقصان پہنچے گا۔ مگر میں اسے نقصان نہیں پہنچنے دوں گی۔ میں خود مرجاؤں گی رفیق لیکن اسے کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ تم گھبراؤ مت۔ اپنا خیال رکھنا میری بچّی کا خیال رکھنا۔ “ وہ بار بار اپنے الفاظ کو دھراتی رہی۔ کبھی کنول کو چومتی تھی۔ کبھی مجھے گلے لگاتی تھی۔

مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میرا دل جیسے کوئی کتر کتر کر پھینک رہا ہو۔ میں نے اسے نیند کی دوا دی۔ وہ بستر پر لیٹ گئی تھی، میرے بازوؤں کے تکیے پر سر ٹکائے، نہ جانے دیواروں پر کیا تکتی رہی تھی۔

دوسرے دن اسے سوتا چھوڑ کر آفس گیا تھا کہ وہاں جا کر ایک ضروری خط لکھنا تھا اوربتانا تھا کہ کچھ دنوں کے لیے نہیں آسکوں گا۔ وہاں بھی ہمارے کمپنی کے کنٹری منیجر نے میرے لیے اپنے ایک دوست سائیکٹرسٹ کو فون کرکے سیما کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ وقت دیں اسے۔ حمل کے بعد ڈپریشن کی شکایت ہوتی ہے جو خودبخود وقت کے ساتھ ختم بھی ہوجاتی ہے۔ وقت ان کے پاس بھی نہیں تھا، میں ان سے اسی وقت نہیں مل سکا انہوں نے چار دن کے بعد شام کو بلایا تھا کہ سیما کو لے کر آؤں۔

میں گھر آیا تو وہ ابھی بھی سورہی تھی، کنول کو امی جان نے باہر کا دودھ شروع کرادیا تھا اور وہ اپنے پنگوڑے میں جھولنے کا مزا لے رہی تھی۔
دوپہر کو ہم نے ساتھ کھانا کھایا، شام کو پھر ایسا لگا جیسے سیما سخت پریشان ہورہی ہے۔ اس کے چہرے پر جیسے کسی نے کوئی ماسک چڑھادیا ہو۔ سوچتی ہوئی دور تک دیکھتی ہوئی ویران ویران سی آنکھیں۔

اس نے ایک دفعہ بھی کنول کو دیکھنے کی خواہش نہیں کی۔ مجھے بار بار ایسا لگتا جیسے وہ من ہی من میں، دھیرے دھیرے رورہی ہو۔
سونے سے پہلے اس نے مجھ سے پھر کہا کہ وہ مجھے بلارہے ہیں اپنے پاس، ان کی آوازیں آرہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں، بچّی کو اس گھر کو، چھوڑدوں۔ کیوں بلارہے ہیں وہ مجھے۔ ”اس نے مجھ سے سوال کیا تھا۔

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں اسے سمجھاتا رہا کہ کوئی نہیں بلارہا ہے تمہیں۔ تم یہاں رہوگی میرے پاس ہمیشہ ہمیشہ۔

مگر وہ ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہی میرے پاس، دو دن کے بعد میں ایک ضروری دستخط کرنے آفس گیا اور جب واپس پہنچا تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ اس نے بیڈ روم میں بستر پر کرسی رکھ کر اپنے دوپٹے کو پنکھے سے باندھ کر گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔ دروازہ توڑ کر ہی ہم لوگ اُس کی لاش باہر نکال سکے تھے۔ سرہانے خط رکھا ہوا تھا:

مجھے لگتا ہے میں اپنی بچّی کی جان لے لوں گی۔ بار بار کوئی مجھے کہتا ہے کہ میں اسے ختم کردوں۔ میں اسے کیسے ختم کرسکتی ہوں۔ مگر مجھے اپنا اعتبار بھی نہیں ہے کہ کب کیا کربیٹھوں۔ بہتر یہی ہے کہ میں خود ہی چلی جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری زندگی کا کوئی فائدہ بھی تو نہیں ہے۔ اپنا خیال رکھنا رفیق اور میری بچّی کا بھی۔
وہ خط میرے ہاتھ سے گِر پڑا۔ میرے سامنے ایک اُداس اور اُجاڑ زندگی پڑی تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4