وہ اپنی بچی کو مارنا نہیں چاہتی تھی


”تم رنڈی ہو“
”رنڈی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طوائف ہو، طوائف ہو تم“
”گندی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملچھہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھنال“
”رنڈی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رنڈی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رنڈی“
”یہ آوازیں میرے کان میں آتی ہیں رفیق، میں کیا کروں۔ “ سیما نے میرے ہاتھوں کو زور سے پکڑ کر دبایا اور آنسو بھری بڑی بڑی آنکھوں سے میر ی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

میں نے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے سمجھایا کہ نہیں سیما یہ سب بکواس ہے بے کار کی باتیں ہیں کچھ بھی نہیں ہے محض وہم ہے تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی کیوں کہے گا ایسی باتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گندی باتیں، تم نے کوئی خواب دیکھ لیا ہے۔

کاش یہ سب کچھ وہم ہوتا، محض وہم ہی ہوتا، ایک بُرا خواب ہوتا مگر یہ سب کچھ وہم نہیں تھا، بُرا خواب نہیں تھا، میری لاپرواہی تھی، میری لاعلمی تھی میری جہالت تھی۔

مگر میں کرتا بھی کیا۔ نہیں میں بہت کچھ کرسکتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر تھامیں کمپیوٹر کی دنیا میں نام تھا میرا۔ انٹرنیٹ پر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا تھا میں۔ لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے مجھے تلاش کرتے تھے۔ ان کے کمپیوٹر کے مسائل کو حل کرتا تھا میں۔ ان کے ان پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرلیتا جو کوئی بھی نہیں حل کرسکتا تھا۔ میں کمپیوٹر کے مسائل دیکھتا رہا، میری سیما اپنے مسئلوں میں اُلجھتی رہی میں کمپنیوں کے، لوگوں کے، کارپوریشن کے، ملٹی نیشنل کے ہارڈسک کے اندر گھس کر انہیں سیدھا کرتا رہا، میری سیما کی ہلکی سی روح اپنے جہنم میں جلتی رہی۔ میں کچھ کرسکتا تھا نہیں کرسکا۔ یہ کیا زندگی ہے، کیسا جیون ہے، میں کدھر آگیا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کر بیٹھا ہوں اپنے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیما کے ساتھ۔

وہ میری زندگی میں ایک خوشبو کی طرح آئی پھر اس نے آہستہ آہستہ میرے چاروں طرف خوشبوؤں اور خوشیوں کی برسات کردی۔ اس نے سب کچھ بدل دیا میرا۔ میں نیا نیا امریکہ سے آئی ٹی میں ماسٹرز کرکے آیا تھا، سوچا تو نہیں تھا کہ پاکستان میں رہوں گا۔ خیال تھا کہ شادی کروں گا، کچھ مہینے خوب گھوموں گا، کبھی سوات، کبھی چترال، کبھی کوئٹہ، کبھی کشمیر۔ کافی جمع شدہ اثاثہ تھا میرے پاس، پھر اس دوران بیوی کے ویزا وغیرہ کا مسئلہ حل ہوجائے تو پھر دوبارہ امریکہ چلا جاؤں گا۔ سلی کون ویلی میں میرے لیے نوکریوں کی کمی نہیں تھی۔

لیکن ایسا ہوا نہیں۔ امی کو سیما مل گئی، کراچی یونیورسٹی سے باٹنی میں ماسٹرز کیا تھا اس نے اور عبداللہ کالج میں نئی نئی لیکچرر اپائنٹ ہوئی تھی۔ میری بھانجی بھی عبداللہ کالج میں فرسٹ ایئر میں پڑھ رہی تھی اس نے میڈم سیما کی تعریفوں کے پل باندھ دیے، میری بہن کے سامنے پھر باجی اور امی دونوں ہی عبداللہ کالج جا کر مل آئیں اس سے۔

میری تو کوئی خاص پسند نہیں تھی بس اتنی سی فرمائش کی میں نے کہ امی جب ساتھ چلے تو لوگ ڈرنہ جائیں۔
جب تو ساتھ چلے گا اس کے تو لوگ تجھ سے ڈر جائیں گے، اس سے نہیں، ایسی ہی بھولی بھالی سی ہے وہ۔ امی نے بڑے پیار سے کہا تھا۔

امی اور باجی کے ہاں کرنے کے بعد میرا نہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ پھر بہت ہی شوق سے ہم دونوں کی شادی ہوگئی اور شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد جب ہم دونوں مری سے ہوتے ہوئے اور اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے میں اس کے ویزا کے لیے درخواست ڈال کر واپس کراچی پہنچے تو میں نے ڈان اخبار میں دیکھ کر ایک درخواست امریکن آئل کمپنی میں ڈال دی۔ اس کمپنی نے کراچی میں آفس کھولا تھا اور اندرون سندھ تیل کے لیے کھدائی کا کام شروع کیا تھا۔

ان لوگوں نے کراچی میں ہی مجھے اتنی زیادہ تنخواہ کی پیشکش کردی کہ میں نے امریکہ واپس جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ امی کی نظروں میں سیما کی قدر بڑھ گئی، ان کا خیال تھا کہ سیما نے مجھے قائل کیا ہے کہ میں کراچی چھوڑ کر نہ جاؤں ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو فوراً ہی امریکہ روانہ ہوجاتی ہیں۔ جتنی جلدی سسرال کے کانٹوں منڈوں سے نجات ملے اتنا ہی اچھا ہے۔ شاید بات صحیح بھی تھی۔ باٹنی کی اس پروفیسر میں امریکہ جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اس نے مجھے بے پناہ چاہا اورمیں بھی اسے بے انتہا پوجتا رہا تھا۔

چار سال تو بس دیکھتے دیکھتے گزرگئے تھے، کبھی کراچی، کبھی دبئی، کبھی سنگاپور اور کبھی ملائیشیا۔ کمپنی کے چکروں میں مجھے ان جگہوں پر جانا پڑتا اور سیما میرے ساتھ ہوتی۔ امریکہ میں آٹھ سال گزار کر میں نے اتنی عیاشی نہیں کی جو مزے سیما کے ساتھ اُٹھائے میں نے۔

امریکہ میں تو پڑھائی تھی پھر کام اور مزید کام اپنی حیثیت منوانے کے شوق میں کام ہی کام۔ جب میں نے ماسٹرز کرلیا تو پھر یہ لگن کے بہت جلد اتنا کام کروں کہ کبھی بے روزگار ہونے کی نوبت نہ آئے اور ہوا بھی یہی۔ ماسٹرز کے بعد دو سال میں نے صرف کام کیا اور صرف ڈالر کمائے جس کے نتیجے میں آئی ٹی کی مارکیٹ میں میری ساکھ بنی اور امریکہ کے بعد کراچی تک مجھے تنخواہ وہی دی گئی جو شاید مجھے سلی کون ویلی میں ہی ملتی۔

شروع کے دو سال تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ فی الحال بچوں کی ضرورت نہیں ہے اور بعد کے دو سال گزرنے کے بعد ہم نے سوچنا ہی شروع کیا تھا کہ کسی گائناکولوجسٹ کے پاس جائیں، حمل کے لیے کچھ علاج کرائیں کہ وہ حاملہ ہوگئی۔ ہم دونوں کا دل جھوم جھوم کر گایا تھا بار بار۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے نو مہینے کے ایک ایک دن کا حساب میرے پاس ہے۔ کب اُلٹیاں شروع ہوئیں، کب پرگننسی ٹیسٹ پازیٹو نکلا، پہلا الٹرا ساؤنڈ پہلی وزٹ، کب الٹرا ساؤنڈ پر بچّے کا دل دھڑکنا شروع ہوا، کب سیما نے اپنے پیٹ میں بچّے کی حرکت محسوس کی، سب کچھ ایک خواب کی طرح میرے دماغ میں محفوظ ہے۔

آج بھی اپنے کمرے میں آنکھیں بند کرکے لیٹتا ہوں تو آہستہ آہستہ سب کچھ دھیرے دھیرے ذہن کے پردے پر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ سیما کے حمل کے ساتھ ساتھ میں بھی گائناکولوجسٹ بنتا جارہا تھا۔ ہر ہفتے دو دو تین تین دفعہ انٹرنیٹ پر جا کر حمل اورحمل کے مسائل کو پڑھتا رہتا۔ کچھ سمجھ میں آتا اور کچھ سمجھ سے باہر ہوتا پھر سیما کی گائناکولوجسٹ سے ہر طرح کے سوالات کرتا، جو جواب وہ دیتی اس سے زیادہ تو مجھے انٹرنیٹ سے پتہ رہتا تھا لیکن پھر بھی نہ جانے ایک خواہش سی ہوتی کہ یہ بھی پوچھ لوں وہ بھی پوچھ لوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی ہی محبت تھی سیما سے مجھے۔ ٹوٹ کر چاہا تھا اسے اور اگر بس چلتا تو شاید کسی سیف میں احتیاط سے تالے میں بند کرکے رکھتا اسے۔ میری بچّی کی ماں بننے والی تھی وہ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4