بلوچستان کے ذریعے مرکزی حکومت حاصل کرنے کا زرداری کا پلان


سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے کنگ میکر ہیں، سردار ثنا اللہ زہری حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سہرا بھی آصف علی زرداری نے خود اپنی زبانی اپنے سر سجا لیا تھا، اس کے بعد 6 رکنی سینٹ ممبران کی نومولود سیاسی جماعت کے رکن کو چیئرمین سینٹ بنانے کا کریڈٹ بھی زرداری صاحب لیتے ہیں لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ ان سیاسی اتار چھڑاؤ میں جناب زرداری کا کردار محض ایک مہمان اداکار سے زیادہ نہ تھی، دوسرے لفظوں میں زرداری کا کندھا استعمال ہوا تھا۔ اصل فائدہ اس کھیل کے اہم بینیفشری چار ہم خیال لوگ تھے جنہیں ہم خیال گروپ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

بلوچستان میں عام تاثر یہ ہے کہ چار لڑکوں ( ہم خیال گروپ ) نے مل کر تجربہ کار سیاست داں آصف علی زرداری کو ماموں بنا دیا مجھے حیرانگی اس بات کی ہورہی ہے کہ جب بلوچستان کے عام فرد کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ زرداری صاحب کا بلوچستان کی سیاست میں ٹکے کی حصے داری نہیں یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ صوبائی حکومت گرانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زراداری نے سردار ثنا اللہ زہری حکومت روکڑے کی طاقت کی بنیاد پر ختم کروا دی تھی، چلو مان لیتے ہیں اصل کام روکڑے کی زور پر کیا گیا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام سیاسی ڈیولیپمنٹ میں زرداری کو حاصل کیا ہوا؟

اطلاعات یہ ہیں کہ آصف علی زرداری کو باور کرایا گیاتھا کہ سینٹ الیکشن میں ہم خیال گروپ کو چیئرمین سینٹ کی سیٹ دی جائے تو آ نے والے 2018 الیکشن سے قبل ن لیگ سے ناراض تمام الیکٹیو ممبران پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گے، قدوس بزنجو کی شکل میں بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی سے ہوگا، چونکہ 2013 کے بعد پیپلز پارٹی بلوچستان سے عملا ختم ہوچکی ہے تو زرداری صاحب کو بلوچستان میں بنی بنائی پیپلز پارٹی حکومت کی چمک نظر آگئی تھی جس کی وجہ سے وہ ہم خیال گروپ پر اندھا اعتماد کر بیٹھے۔ حالانکہ سینٹ انتخابات سے قبل ہی بلوچستان سے خبریں چل رہی تھیں کہ ہم خیال گروپ پر مشتمل دو درجن سے زائد ایم پی ایز ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لئے سنجیدہ ہوچکے ہیں بعد میں اس گروپ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے اپنی ایک نئی جماعت بھی بنا ڈالی۔

اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ ایک بار پھر مرکز میں زرداری صاحب بلوچستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلا چاہتے ہیں، آصف علی زرداری نے اپنے تئیں ایک پلان تیار کر رکھا ہے جس کے تحت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو پیپلز پارٹی بطور وزیر اعظم نامزد کریں گے۔ اس بارے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لے گی۔ بظاہر یہ معاملہ بڑآسان لگتا ہے کیونکہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان نیشنل پارٹی کی چار رکنی بیساکھی پر قائم ہے اگر بی این پی نے اپنا کندھا سرکا دیا تو یہ دھڑام سے زمین بوس ہوگا۔

بظاہر یہ آسان معاملہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا زرداری صاحب سمجھ رہے ہیں جس طرح انہوں نے سرادر ثنا اللہ زہری حکومت گرانے کے بعد سمجھا تھا۔ میری اس بارے میں بی این پی کے سرکردہ رہنماؤں سے بات ہوئی ہے، میری معلومات کے مطابق سردار اختر مینگل اب تک آصف علی زرداری کے اس منصوبے سے متفق نہیں ہوسکے ہیں، بلوچستان کے سیا سی حلقوں میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ بلوچستان کے اپنے بہت سارے مسائل ہیں ان مسائل میں سے 6 کی نشاندہی کر کے بی این پی نے تحریک انصاف کے سامنے بڑے شد مد کے ساتھ رکھا ہے، زرداری صاحب سندھ حکومت بچانے کی خاطر بلوچستان کو ایک بار پھر تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں لیکن سردار اختر مینگل بلا مقصد تجربہ گاہ بننے کوتیار نہیں ہوں گے، بقول ہمارے استاد سینئر صحافی انور ساجدی کے سردار اختر مینگل کو اقتدار کی طلب ہو سکتی ہے لیکن اقتدار کی ہوس نہیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگر تحریک انصاف نے بی این پی کے 6 نکات میں سے 2 پر بھی عمل در آمد کرا دیا تو وہ تحریک انصاف کے ساتھ اگلے الیکشن تک جڑے رہیں گے، اگر کسی ایک پر بھی عمل نہ ہوسکا تو اگلے تین سے چار ماہ کے بعد بی این پی اپنی پوزیشن واضح کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).