پیوستہ رہ آمریت سے، اُمید جمہوریت سے رکھ


پاکستان میں سب سے زیادہ معاشی و صنعتی نمو ایوب خان کے دس سالہ اقتدار میں ہوئی۔ بھٹو صاحب اور شیخ مُجیب پاکستان کے دو لخت ہونے کے ذمہ دار تھے۔ ضیا الحق ہی اصل میں مرد حق تھا، بے نظیر کو مغربی قوتیں اسلام دُشمنی کے لیے لے کر آئیں۔ پرویز مُشرف کے دور میں عوام خوشحال اور بجلی پوری تھی مگر زرداری نے ساری معشیت لپیٹ دی اور میاں نواز شریف جاتے جاتے بجلی شاپر ڈبل کرا کے لے گئے۔ سب سیاستدان چور ہیں، ان سے بہتر تو آمر تھے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے مگر عوام سے، آمریت میں کم از کم عوام خوشحال تو ہوتے ہیں۔

یہ اور اس قسم کے کئی جُملے ہمیں روز ٹیلی ویژن کی سکرین سے لے کر تھڑے پر بیٹھے کئی اشخاص کی زبان سے سُنائی دیتے ہیں۔ جب بھی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ہوشرُبا داستان سُنتا ہوں یا مطالعہ پاکستان کی کتاب پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شیطان بھی کہتا یارب! مُجھے ناحق مردود قرار دیا اصل کام تو یہ پاکستان کے سیاستدان کر رہے ہیں اور جب آمروں کی باتیں سُنتا ہوں تو کبھی کبھی نہیں ہر دم یہ خیال آتا ہے کہ سکندر نے بھی کیا فتوحات کیں ہوں گی اصل فاتح عالم تو ایوب خان تھا، عدل جہانگیری کا تو بس نام ہے در اصل انصاف کا مترادف تو ضیا الحق تھا، اپنی قوم کے لیے منڈیلا، گاندھی اور جناح کیا لڑیں ہوں گے پرویز مُشرف کے، ”سب سے پہلے پاکستان“ جیسا خود دار اور غیرت مند نعرہ بنا کے لاؤ تو مانوں۔ مطلب یہ کے تاریخ پاکستان کی جتنی ناکامیاں ہیں اور سیاستدانوں کی نا اہلی کا نتیجہ ہیں اور جتنی کامیابیاں ہیں وہ عظیم سپہ سالاروں کی مرہون منت اور مجاہدین ملت کے بائیں ہاتھ کے کمالات۔

آمریت نے مُلک کو دو لخت کر دیا، آمر نے فاطمہ جناح کے ساتھ ہی نہیں قوم کے مُستقبل کے ساتھ دھاندلی کی اور مُلکی معشیت 22 خاندانوں کی لونڈی بنا دی مگر احتساب صرف بھٹو صاحب کا ہونا چاہیے کہ وہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کیوں نہ دے سکے۔ ٹکٹکیوں پر عوام کو آمر باندھے، طالبان آمر بنائے، حساب کے ڈر سے اُوجھڑی کیمپ اُڑا کر پنڈی میں قیامت صغریٰ برپا کر دے مگر احتساب تو صرف بے نطیر اور زرداری کا ہونا چاہیے کیوں کے وہ تو مغربی قوتوں کے آلہ کار اور غدار وطن جو ٹھرے۔ میڈیا چینلز پر حملہ آمر کرے، ججوں کو نظر بند کیا جائے، کراچی کو فتح کرنے بعد مُکہ وہ لہرائے، اکبر بُگٹی کی سر پر میزائل وہ چلائے مگر نا اہل نواز شریف کو ہونا چاہیے کہ کیسا بُزدل اور وطن دُشمن انسان ہے جس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ کلبھوشن کا نام بھی لے سکتا۔

مان لیا کہ سیاستدان فرشتے نہیں اور اُن کی غلطیوں کا حساب بھی ہونا چاہیے اور اُن کی دولت کا احتساب بھی مگر آمروں کو رعایت کیوں؟ مُجھے شکوہ صرف مقتدر حلقوں سے نہیں بلکہ عوام اور میڈیا سے بھی ہے جن کو کالے کرتوتوں والے سیاستدان تو نظر آجاتے ہیں مگر دن کی روشنی میں بھی مجسم سیاہ آمروں کو دیکھ کر نظروں کو پھیر لیتے ہیں۔ اگر بھٹو صاحب، نواز شریف اور الطاف حُسین غداران ملت ہیں توان کو کارزار سیاست میں لانے والا کون؟ ان کو عوام کو سروں پر بٹھانے والا کون؟ اگر یہ چور ہیں تو چور کی نانی کون؟ ان سب نے مُلک کو بیچ ڈالامگر ان کو دُکان دار بنانے والا کون؟ مان لیا کہ یہ سیاستدان ہماری اُمیدوں پر پورا نہیں اُترے مگر یہ تو صرف مسائل کو بڑھاوا دینے والے ہیں، مسائل کے بیج بونے والے تو آمر تھے۔ ہم نے بطور قوم ہمیشہ جمہوریت سے اُمید رکھی مگر نجانے کیوں شعوری و لا شعوری طور پر آمریت سے قلبی ذہنی وابستگی نہیں توڑ پاتے۔ مگر اب شاید وقت آچکا ہے کہ آمروں اور آمریت سے ہر قسم کی برات کا اظہار کر دیا جائے۔ جس کا جو جُرم اُس کو اُس کی سزا ملنی چا ہیے۔ آمروں کو بھی اب اُسی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا جس میں 70 سالوں سے صرف سیاستدان اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ اب سب کا حساب جمہوریت نے نہیں دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).