غیر ملکیوں کے یا غیر ممالک کے دورے


ایک طویل عرصے سے جو بات قابل توجہ نظر آرہی ہے وہ پاکستان کے حکمرانوں کے غیرملکی دوروں کی نظر آرہی ہے۔ ادھر ملک کی مسند اقتدار پر براجمان ہونا اور ادھر دوروں کے دورے پڑنا۔ اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل اپنوں سے پہلے حکمرانوں کے یہ دورے وقت اور سرمائے کا زیاں کہنے والے جونہی اقتدار میں آتے ہیں تو وہی سارے اقدامات اٹھاتے ہوئے نہ تو وقت کا زیاں زیاں لگتا ہے اور نہ ہی دولت کی بربادی دولت کی بربادی دکھائی دیتی ہے۔

مجھے آج تک یہ بات یاد نہیں کہ کسی بھی دور حکومت میں یہ کہا گیا ہو کہ فلاں دورہ ناکام رہا ہے یا جو جو مقاصد دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے تھے ویسے حاصل نہ ہوسکے ہوں بلکہ ہر حکومت نے یہی دعویٰ کیا کہ اس کے دورے کامیاب ترین دورے ثابت ہوئے جن کا ایک اچھا اثر آنے والے دنوں میں عوام کے سامنے آجائے گا۔ اگر گزشتہ ادوار سے لے کر تاحال تمام حکمرانوں کے ”کامیاب“ ترین دوروں کا حساب لگایا جائے اور ان کی اس یقین دھیانی کو کہ آنے والے وقت میں عوام ان دوروں کے بہترین نتائج دیکھیں گے تو آج کا پاکستان دنیا کی ہر خوشحال ترین قوم سے بڑھ کر خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام سے آگے کھڑا ہوا نظر آنا چاہیے۔ افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور ہر گزرجانے والے وقت نے ہمیں پیچھے کی جانب تو ضرور دکھیلا لیکن آگے کی جانب ایک انچ بھی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

حکمرانوں نے ہمیں سنہرے خواب دکھا دکھا کرذہن کی اس پستی میں لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اب پاکستان کا کوئی بھی حکمران جب کسی دوسرے ملک کے سفر کا قصد کرتا دکھائی دیتا ہے یا کوئی اور سربراہ مملکت یا کوئی اعلیٰ قسم کا غیر ملکی ڈیلی گیشن پاکستان آرہا ہوتا تو عوام کی آنکھوں میں جو تصویریں محو رقص ہونے لگتی ہیں وہ ڈالرز ہوتے ہیں۔ جب پاکستان سے کوئی حکمران جارہا ہوتا ہے تو ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں ”پیکجوں پیکجوں“ کا شور و غوغا سنائی دینے لگتا ہے اور لگتا ہے کہ جس جہاز سے وہ جارہے ہیں وہ ڈالروں کی گڈیوں سے بھر کر ہی آئے گا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران عام کمرشل فلائٹ کی بجائے یا کسی چھوٹے چارٹر طیارے کی بجائے پاکستان کا سب سے بڑا ہوائی جہاز لے کر جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی غیرملکی ڈیلی گیشن پاکستان کا رخ کرتا ہے تو تمام وزرا مع وزیر اعظم بڑی بڑی گاڑیاں لے کر اس آسرے پر ایئرپورٹ لے کر دوڑ پڑتے ہیں کہ جب غیر ملکی مہمان اپنے بڑے سارے جہاز کا دروازہ کھولیں گے تو اس میں ڈالروں کی وہ گڈیاں جو خود بخود زمین پر آن گریں گی تو ان کو سمیٹا جا سکے۔

جب وزیراعظم ترکی کے دورے پر روانہ ہوئے تھے تب بھی یہی شور بلند ہو رہا تھا کہ ترک عوام اور حکمران بوریاں کھولے کھڑے ہیں اور جب امارات کے ولی عہد نے پاکستان کا رخ کیا تو اس وقت بھی ایسا ہی لگ رہا تھا تھا کہ بس اب پاکستان کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے اور پاکستان دنیا کا خوشحال ترین ملک بن جائے گا۔

ماضی میں بھی حکمرانوں نے ملک سے باہر کے بہت دورے کیے ہیں اور یوں بھی ہوا ہے کہ غیر ملکی حکمران یا اہم شخصیات پاکستان کی جانب آتی رہی ہیں لیکن کسی کی سوچ میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ آنے اور جانے کا ایک ہی مقصد و مدعا یعنی امدادی پیکج کا حصول رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے 12 سال بعد پاکستان کا مختصر دورہ کیا، وزیراعظم عمران خان اور اماراتی ولی عہد شیخ محمد کی ون آن ون اور وفود کی سطح پر ملاقاتوں کے دوران دونوں ممالک نے پاک امارات تجارت کے لئے ٹاسک فورس بنانے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پر اتفاق کیا جبکہ آئل ریفائنری سمیت اقتصادی پیکیج پر معاملات حتمی ہوگئے اور طویل المیعاد سرمایہ کاری فریم ورک معاہدہ پر پیشرفت ہوئی۔

جنگی مشقوں، تربیت اور دفاعی شعبے میں تعاون کا عزم کیا گیا جبکہ اماراتی ولی عہد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا، وزیراعظم نے ولی عہد کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا جبکہ ادائیگیوں میں توازن کے لئے 3 ارب ڈالرز کی فراخدلانہ معاونت پر اظہار تشکر کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اماراتی ولی عہد نے کہا کہ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے۔

ہمارے معاشرے میں اب بھی ایسے بہت سارے گھرانے موجود ہیں جو یہ کہتے نظر اتے ہیں کہ جب ہم تمہارے گھر آئیں گے تو تم ہمیں کیا دو گے اور جب تم ہمارے گھر آؤ گے تو ہمارے لئے کیا لاؤگے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کو ذہنی پستی کی آخری حد سے بھی نیچے کی حد پر گنا جاسکتا ہے۔ کچھ ایسی ہی ذہنی صورت حال آج قوم کو درپیش ہے جو ہر غیرملکی دورے کے بعد یا غیر ملکیوں کے دوروں کے بعد یہ توقعات لگا کر بیٹھ جاتی ہے کہ گئے تھے تو کیا لائے اور آنے والے کیا دے کر گئے ہیں۔

دوروں کا مقصد صرف ڈالروں کا حصول ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ ڈالروں کا مقصد ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ خارجہ تعلقات کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو اپنے قریب لانا ہوتا ہے۔ دوستانہ مراسم کو بڑھانا ہوتا ہے اور دوطرفہ تجارت کو فرغ دینا ہوتا ہے۔ لیکن نہ معلوم موجودہ حکومت ایسے تاثر کو فروغ دینے اور عوام میں وسعت نظر کو بڑھانے میں کیوں ناکام نظر آرہی ہے اور عوام کو صرف ایک ہی حوصلہ دیتی نظر کیوں آرہی ہے کہ ہم اگر کہیں جاتے ہیں تو پاکستان کے لئے کوئی اچھا سا پیکج لے کر آئیں گے اور کوئی ہماری جانب آئے گا تو وہ نوٹوں کی گڈیاں ہی لے کر آئے گا۔

متحدہ امارات کے وفد کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی جو بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلائی گئی وہ بھی تمام امور ہائے مملکت کو چھوڑ کر اقتصادی پیکج ہی کی پھیلائی گئی۔ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک ایک ہی شور تھا کہ 12 ارب ڈالر کا ایک شاندار پیکج اعلان ہونے والا ہے۔ ان باتوں سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دیر نہیں لگ سکتی کہ اس وقت موجودہ حکومت اور ان کے سپورٹرز کا سب سے بڑا اشو دولت کا حصول ہی ہے خواہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ملک تو ملک، ایک گھر بھی روپے پیسوں کے بغیر نہیں چل سکتا لیکن اس کے لئے یہی اوڑھنا بجھونا بنالیا جائے تو گھر یا ملک چل جائے گا؟

کہاجاتا تھا کہ گزشتہ حکومت کی فضول خرچیاں کئی سو کروڑ روپے روزانہ کے حساب سے تھیں جبکہ کرپشن کی مد میں ملک کے خزانے کو روزانہ کھربوں روپوں کا چونا لگایا جارہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے نہ صرف اپنے روز مرہ کے اخراجات کم کیے ہیں بلکہ کرپشن صفر ہو کر رہ گئی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے 150 دنوں سے زیادہ کی یہ بچتیں قوم کو کیوں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اگر ان سارے سوراخوں کے بند ہوجانے کے باوجود بھی اسی پیمانے پر قرضوں پر قرضوں کے انبار کی ضرورت باقی ہے تو پھر اس بات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ وہ کیا گزشتہ حکومت پر محض الزامات تھے یا اب جو بچت کے دعوے اور کرپشن کی روک تھام کی باتیں ہیں وہ غلط ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).