کشمیریوں کا حقِ خودارادیت، مشترکہ مزاحمتی قیادت اور ’سیدِ کشمیر‘


5جنوری 1949 ء کو عالمی برادری نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی کے فیصلے کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرار دادپاس کی کہ کشمیری اپنے مستقبل کا تعین خود کریں گے اور رائے شماری کے ذریعے انہیں اپنا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اس دن کو کشمیری حق خود ارادیت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہندکے وقت برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن بھارتی سازش اور اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا اور کشمیرکو بھارت کاحصہ بنانے کے لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ہندوستان کی تقسیم کے لیے انگلستانی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ریڈ کلف کمیشن نے اہم کردار ادا کیا۔ بھارت شروع دن سے کشمیر میں ظلم و بربریت کی مثالیں رقم کر رہا ہے جو 70 برس بعد بھی آج تک زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہیں۔

کشمیری بھی اول روز سے بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اکتوبر 1947 ء کو بھارتی حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر اور گلگت بلتستان کو آزاد کرالیا گیا۔ بھارت نے دیکھا کہ اب کشمیری مجاہدین کو فوجی طاقت کے ذریعے دبانا مشکل ہے تو وہ مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حق خود ارادیت کی قرارداد منظور کی گئی اِسی قرارداد کی بنیاد پر آج کشمیری دنیا بھر میں یوم حق خودارادیت منا رہے ہیں۔

ہر سال 5 جنوری کو کشمیری یوم حق خود ارادیت منا کر اقوام متحدہ و عالمی برادری کو ان کا وعدہ یاد دلاتے ہیں۔ اقوام متحدہ ریاست جموں و کشمیر کی تمام اکائیوں میں رائے شماری کرانے کا ذمہ دار ہے جبکہ بھارت اور پاکستان کشمیریوں کو آزادانہ فیصلہ کرنے اور حق خودارادیت دینے کے پابندہیں۔ بھارت 47 ء میں مسئلہ کو خود اقوام متحدہ میں لے گیا اور اس قرارداد کی منظوری کے باوجود کشمیر میں ظلم وستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جس میں تا حال روز بروز شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت تک لاکھوں گھروں کو تباہ، لاکھوں خاندان مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرچکے، ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمت دری کی گئی، لاتعداد ماؤں کے لخت جگر لاپتہ ہو گئے، آج بھی ہزاروں کی تعداد میں معصوم کشمیری نوجوان بھارتی جیلوں میں پڑے ہیں۔ 47 ء سے اس وقت تک کشمیریوں نے پانچ لاکھ سے زائد جانوں کی قربانیاں دے دیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ کے قریب بھارتی فوج غیر قانونی قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ جولائی 2016 ء میں آزادی کے متوالے برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اس وقت تک بالخصوص نوجوانوں، طلبہ و طالبات، میڈیا نمائندگان، خواتین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

پر امن مظاہرین پر بھی گولیاں برسائی جا رہی ہیں، گھروں سے باہر نکلنے والے معصوم نوجوانوں کو ٹارگٹ کر کے شہید کیا جا رہا ہے۔ پیلٹ گن کے استعمال سے ہزاروں لوگوں کو زخمی کیا گیا جبکہ سینکڑوں مکمل بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارتی بربریت کا صرف ایک سال کا جائزہ لیا جائے توسا ل 2017 ء میں بھارتی فورسز نے 291 معصوم کشمیریوں کو شہید کیا جن میں اس ایک سال میں 18 نوجوان اور 6 خواتین شامل ہیں۔ 22 افراد کو دوران حراست تشدد سے شہید کیا گیا۔

سال 2017 ء میں 31 خواتین بیوہ ہوئیں، 73 بچوں سے ان کا سایہ چھین کر انہیں یتیم کیا گیاجبکہ 271 خواتین کی عصمت دری کے واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ ریکارڈ کا حصہ نہ بننے والے واقعات اس سے کئی زیادہ ہیں۔ اِسی سال 4674 معصوم سویلین پر دوران احتجاج تشدد وزخمی کیا گیا جبکہ 3529 افراد جن میں حریت لیڈران بھی شامل ہیں کو گرفتار و نظر بند کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں فوج کو آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ افسپا (AFSPA) ، جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (JKPSA ) ، ڈسٹرپڈ ایریا ایکٹ (DAA) جیسے کالے اور غیر انسانی قوانین کے تحت اختیارات دیے جن کی بنیاد پر بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں جبر و استحصال کی نئی تاریخ رقم کی۔ بھارتی ظلم و بربریت کی جب انتہاء ہوئی تو کشمیریوں نے 1980 ء کی دہائی میں بندوق اٹھائی اور مسلح جدو جہد کاآغاز کیا۔ کشمیری مجاہدین نے بھارت کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کو مسلح تحریک میں ناکوں چنے چبوائے۔

کشمیریوں نے حق خودارادیت دلوانے میں سب سے اہم ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جس نے کشمیریوں کے وکیل کے طور پر کیس لیا اور کشمیریوں کے مسئلہ کے حل کے لیے دنیا کے فورمز پر ’مقدمہ کشمیر‘ پیش کیا۔ کشمیریوں کی مسلح تحریک زورں پر تھی کہ بدقسمتی سے دنیا کی عدالت میں مدعی کا کیس لڑنے والے وکیل نے ہی مخالف فریق کی کامیاب خارجہ پالیسیوں اور حکمت عملی کی بدولت کیس کو جاندار انداز میں لڑنے کے بجائے سست روی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اور مخالف وکیل کو یہ موقع دیا کہ وہ دفاعی میدان میں بھرپور تیاری اورحکمت عملی اپنا لے۔

کشمیریوں کے وکیل کی بدلتی پالیسیوں نے کشمیریوں کی جاری تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اسلام آباد کی کشمیر پالیسی پر بار بار رد و بدل اور یوٹرن نے کشمیری عوام کی امیدوں پر پانی پھیرا۔ 9 / 11 کے بعد عالمی استعماری ایجنڈے کے تحت اسلام آباد میں بیٹھے وقت کے ڈکٹیڑ پرویز مشرف نے بھارت، امریکہ اور دیگر عالمی جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی خواہش پر ٰوٹرن لیتے ہوئے کشمیریوں کی مسلح تحریک کو دبا کر تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی کوشش کی بلکہ تحریک آزادی کشمیر کی قیادت کرنے والے سب سے اہم فورم حریت کانفرنس کو بھارتی ایما پر خفیہ اداروں کو ٹاسک دے کر تقسیم کیاگیا۔

تحریک آزادی کشمیر کے لیے حریت کانفرنس کا فورم سب سے فعال اور منظم تھا اور تحریک آزادی کے لیے بھرپور حکمت عملی کے تحت کام کیا جا رہا تھا جس کی بنیاد پرکئی محاذوں پر بھارت کو اپنے منصوبوں میں بدترین ناکامی بھی ہوئی۔ حریت کانفرنس کے سالارِاعلیٰ ’سیدِ کشمیر‘ سید علی گیلانی کی قیادت میں کشمیری دونوں محاذوں پر تحریک آزادی کی جنگ بھرپور کامیابی کے ساتھ لڑ رہے تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ آزادی کی منزل کا حصول اب زیادہ دور نہیں ہے۔

کشمیریوں کی اس منظم تحریک کو ہر سطح پر دبانے کے لیے ”اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا“ کے مصداق امریکی اور بھارتی ایما پر پاکستان کے حکمرانوں اور اسلام آباد کی وقت کی پالیسیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ حریت کانفرنس کو تقسیم کر کے ایک الگ دھڑا قائم کیا گیا جس کی باگ ڈور ہاں میں ہاں ملانے والے لوگوں کے ہاتھ میں دی گئی جنہوں نے اِس پار بھی اوراُس پار بھی تقسیم کشمیر پر مشتمل سیون ریجن، چناب فامولے اور تقسیم کشمیر پر مبنی ہر کوشش کی حمایت کی۔

مشرف کی ان پالیسیوں کی بے جا حمایت آزاد کشمیر کے چند سیاستدان اور وقت کے وزیر اعظم بھی کرتے رہے۔ نئے فارمولوں کی حمایت کی آڑ میں پرویز مشرف اور بھارت کی طرف سے ایک دھڑے کے حریت لیڈران کو بھرپور نوازا بھی گیا۔ دوسری جانب اُس وقت بھارتی حکومت اور پرویز مشرف نے سید علی گیلانی کو بڑی مراعات کی پیشکش بھی کی لیکن ”سیدِ کشمیر“ کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور انہوں نے حریت کانفرنس کے اتحاد پر کیے گئے اس وار کو تحریک کے خلاف گہرا وار قرار دیا۔

سید علی گیلانی پیرانہ سالی میں بھی مسلسل نظر بند و گرفتار ی میں ہیں۔ بھارتی سرکار انسانی حقوق، عالمی قوانین، اخلاق و اصول کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے عارضہ قلب میں مبتلاء اس عظیم حریت پسند کو اپنی بیماری کے علاج کے لیے بھی موقع فراہم نہیں کر رہی۔ نماز جمعہ اور یہاں تک عزیزوں اور شہیدوں کے نماز جنازہ پڑھنے پر بھی پابندی ہے۔ مصائب و مشکلات کے سائے میں بھی کشمیریوں کے اس سالارِ اعلیٰ کے مؤقف میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہ لائی جا سکی۔

دنیا بھر میں آزادی پسندوں کے لیے مثال بننے والے اس عظیم ’سید‘ پر سلام جس نے مراعات اور پیش کشوں کو ٹھکرا کر کشمیریوں کے لیے حق خود ارادیت پر سودے بازی کر کے کسی وقتی فارمولے کی حمایت نہیں کی۔ آج بھی جب سید علی گیلانی کے کسی چوک میں خطاب کی خبر سنائی دیتی ہے تو کشمیری بے خوف و خطر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ شوپیاں واقعہ، شریان بورڈ کے نام پر زمین کے ردو بدل، ہزاروں گمنام قبروں کی دریافت، نوجوانوں کو ٹارگٹ کیے جانے اور پیلٹ گن کے استعمال جیسے واقعات سے لے کر برہان وانی کی شہادت تک سید علی گیلانی اور ان کے ساتھ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے جو کال دی اس پر کئی کئی لاکھ کے مجمعے جمع ہوئے اور بھارتی تسلط کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی۔ سید کشمیر آج بھی اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ایک ہی مطالبہ ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے نہ جھکنے والے اس ضعیف العُمجواں ہمت لیڈر کو سنگینیاں بھی شکست نہ دے سکیں۔

یہ بات ایک بار پھر خوش آئند اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کے لیے حوصلہ افزاء ہے کہ اس وقت حریت کانفرنس کے لیڈران ایک بار پھر متحد ہیں مشترکہ مزاحمت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ سید علی گیلانی، لبریشن فرنٹ کے چئیرمین یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، شبیر شاہ اور دیگر اس وقت اتحاد و اتفاق سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کو اس مشترکہ قیادت کی کال، پالیسیوں اور حکمت عملی کا ساتھ دیتے ہوئے نئے انداز میں تحریک کو آگے بڑھانا ہو گا۔

پاکستان کی حکومت و پالیسی سازوں کو بھی اب مشترکہ مزاحمتی قیادت کی پالیسیوں اور ان کے مؤقف کی کھلے عام حمایت کرتے ہوئے اس کیس مضبوط کرنے کی کوششوں کے ساتھ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف وزریوں کو نئی اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ دنیا بھر میں اجاگر کرنا ہو گا۔ دنیا کا ضمیر جاگے یا نا جاگے ہمیں اپنے فریضہ کی ادائیگی کے لیے دستک دیتے رہنا ہو گی۔

توڑ اس دستِ جفا کش کو یا رب

جس نے روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).