انڈیا: تعمیراتی ادارے قوانین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے مزدوروں کے تحفظ کو نظر انداز کرتے ہیں


نومبر کا مہینہ تھا اور ہر روز کی طرح صبح سویرے میر حسن نئی دہلی کے مضافات میں نوئیڈا کے علاقے میں ایک زیر تعمیر عمارت پر کام کرنے پہنچے۔

انھوں نے پانی کی بوتل پی کر کام شروع کر دیا جوکہ ان کا روز کا معمول تھا۔

مگر کچھ گھنٹوں بعد وہ ایک اس اونچی عمارت سے گر کر ہلاک ہو گئے۔

ان کے پاس ذرہ بکتر، ایسے حفاظتی جوتے جن کی مضبوط پکڑ ہو اور انشورنس ہونی چاہیے تھی تاہم ان کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا حالانکہ تعمیراتی کمپنیوں پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ مزودروں کو یہ چیزیں فراہم کریں۔

بیشتر ادارے پیسے بچانے کے چکر میں بہت سے قوانین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے اپنے مزدوروں کے تحفظ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں جو ان کے کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔

میر حسن کی موت سال 2018 کا واحد واقعہ نہیں بلکہ اسی سال نوئیڈا میں پانچ مزدوروں کی اسی طرح اموات ہوئیں اور متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

گجرات میں تشدد انڈیا کی معیشت کا آئینہ دار کیوں؟

سعودی عرب میں نصف تنخواہ اور قید کا ڈر

کوئلے کی کانوں میں مسلسل ہلاکتیں کیوں ہو رہی ہیں؟

رام بھون نے نوئیڈا میں کئی عمارتوں کی تعمیر پر کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ٹھیکے دار مزدوروں کی حفاظت کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

’کئی بار ہمیں ہیلمیٹ فراہم کیا جاتا ہے جو کہ زیادہ تر پرانا اور صحیح طرح پورا بھی نہیں آتا۔ جوتے بھی غیر معیاری دیے جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا ’ہر مزدور خطرات سے واقف ہوتا ہے اور کسی دوسرے کی موت کی خبر سن کر ہم خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے پاس حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

رام گذشتہ سال دلی چھوڑ کر تعمیراتی شعبے میں مزدوری کرنے الہ آباد چلے گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’میرے ساتھیوں کی اموات نے مجھے بے حد خوفزدہ کر دیا تھا۔ اب میں چھوٹے تعمیراتی مقامات پر کام کرتا ہوں جہاں خطرہ تو ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں۔‘

انڈیا میں گذشتہ کچھ برسوں کے دوران آمدن بڑھنے سے شہروں میں تعمیرات کے شعبے میں کافی ترقی دیکھی گئی ہے لیکن تعمیرات کے کام کے لیے اکثر مزدور اپنے چھوٹے شہروں اور گاؤں میں نوکریوں کے فقدان کے باعث نقل مکانی کر کے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

اگر ایک مزدور حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے سے انکار کر بھی دے تو 100 اور مزدور اس کی جگہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں اس لیے تعمیراتی کمپنیوں اور اداروں کو یہ خوف نہیں ہے کہ انھیں کام کے لیے مزدور نہیں ملیں گے۔

’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ نامی جرنل کے سربراہ اور ایڈیٹر پی سیناتھ کا کہنا ہے کہ زرعی بحران نے بھی مزدوروں کو دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’حکومت کی کمزور پالیسیوں کی بدولت کاشتکاری بھی غیر مستحکم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بیشتر کاشت کار تیزی سے تعمیرات کے شعبے میں آ رہے ہیں۔‘

اتُل کمار نوئیڈا میں ایک زیر تعمیر منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کاشتکاری مہنگی ہونے کی وجہ سے اترپردیش کے پاس اپنا دیہات چھوڑ کر شہر آئے تھے۔

’مجھے کاشتکاری سے مناسب آمدن نہیں ہو رہی تھی۔ میں بطور ایک مزدور روزانہ 200 سے 300 روپے کما لیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں اس شعبے میں کیا خطرات ہیں پر یہ کام میرے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔‘

میں نے الہ آباد اور نوئیڈا میں بہت سے زیر تعمیر مقامات کا دورہ کیا اور وہاں مزدوروں کو حفاظتی آلات کے بغیر کام کرتے دیکھا۔ جب ہم نے منتظمین سے بات کرنے کی کوشش کی تو ہمیں وہاں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔

میری ملاقات راکیش کمار (فرضی نام) سے ہوئی جو ایک زیر تعمیر عمارت کے قریب واقع ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے دو بچے اسی ریت سے کھیل رہے تھے جو تعمیراتی کام میں استعمال ہوتی ہے۔

اس جھونپڑی کی چھت محض ایک پلاسٹک کی چادر سے بنی تھی اور اس میں مشکل سے چار افراد کے سونے کی جگہ تھی۔

انھوں نے بتایا ’رات میں شدید ٹھنڈ ہوتی ہے اور میرے بچوں کو یہ سہنا پڑتا ہے۔ میں انھیں سکول بھیجنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا اور یہ بات مجھے کافی پریشان کرتی ہے لیکن میرے لیے انھیں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا انھیں تعلیم دینے سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کبھی تو حفاظتی آلات مانگنے پر انھیں گالی گلوچ کا بھی سامنا کرنا ہڑتا ہے۔ ’کبھی کبھار ہمیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔‘

گایا دین کی عمر اب 55 برس ہے لیکن انھوں نے جب اس شعبے میں مزدوری شروع کی تو وہ صرف 15 برس کے تھے۔

’برسوں کی مشقت مزدوری کی وجہ سے میری کمر میں اب تکلیف رہتی ہے۔ میرے پاس اور کوئی صلاحیت نہیں اس وجہ سے میں نے سب کچھ قسمت پر چھوڑ دیا ہے اور مجھے کسی حکومت سے کوئی امید نہیں ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ کچھ پیسے بچا سکوں تاکہ جس وقت میرا جسم مزدوری کی اجازت نہ دے تو وہ حقیر سی رقم ہی میرا سہارا بن جائے۔‘

گایا دین زیادہ تنخواہ کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کے اس کام کی مزدوری کی بہت مانگ ہے۔

’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ نامی جرنل کے سربراہ اور ایڈیٹر سیناتھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ کمپنیاں دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدورں کو کام پر رکھنے کو فوقیت دیتی ہیں۔

’مہاجر مزدور ملک کے دیگر علاقوں سے آتے ہیں اور اس وجہ سے ایسا کوئی خدشہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک انجمن بنا کر بہتر آمدن اور حفاظتی آلات کا مطالبہ کریں گے جبکہ مقامی لوگ باآسانی انجمن بنا سکتے ہیں۔‘

مہاجر مزدوروں کے پاس قانونی چارا جوئی کرنے کے بھی وسائل موجود نہیں ہوتے۔

سیناتھ کہتے ہیں ’جب تک ادارے مہاجر مزدوروں کو ترجیح دیتے رہیں گے یہ لوگ آتے رہیں گے اور کوئی ان کی حفاظت کی پرواہ نہیں کرے گا۔‘

اس کام میں واحد خطرہ صرف موت نہیں۔ مزدوروں کو تعمیراتی ماحول میں نہ صرف دھول مٹی بلکہ زہریلی آلودگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

25 سالہ دلیپ کمار کو سانس کی بیماریاں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’مجھے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور مسلسل کھانسی بھی رہتی ہے۔

’میں اس سب پر دھیان نہیں دیتا، میں صرف دل لگا کر کام کرنا چاہتا ہوں اور پیسے جوڑ کر اپنے گاؤں میں ایک دکان کھولنا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ میرا یہ خواب پورا ہو گا لیکن میں خواب دیکھتا رہوں گا۔‘

خواتین مزدور ان کے علاوہ دیگر مشکلات کا سامنا بھی کرتی ہیں۔

رینا کماری الہ آباد میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکے دار خواتین کو ترجیح نہیں دیتے اور نوکری دینے کی صورت میں صرف نوجوان خواتین کو رکھتے ہیں۔

’ان کو یہ لگتا ہے کہ خواتین مردوں جتنا کام نہیں کرسکتی اس کی وجہ سے مجھے ہر روز کام نہیں ملتا یا ایک حقیر سی رقم پر مل جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا اس لیے اپنے بچوں کے لیے کام کر رہی ہوں۔‘

مزدوروں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

اورپراجیکٹ نامی آرکیٹیکچر کمپنی کے بانی رجت سودھی کا کہنا ہے کہ ٹھیکے داروں کو حفاظتی اقدامات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

’ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے اداروں کے پاس صحت و حفاظت کے لیے ایک محکمہ مختص ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں ایک نمائندہ ہر وقت زیر تعمیر جگہ پر موجود رہتا ہے لیکن اس پر پیسے خرچ ہوتے ہیں اور بھارتی ٹھیکے دار زیادہ خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ گو کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن موجودہ قوانین پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔

نوئیڈا کے ضلعی مجسٹریٹ بی این سنگھ کا کہنا تھا کہ آگاہی کا فقدان ایک بنیادی وجہ ہے کہ ادارے حفاظتی ضابطوں کا خیال نہیں کرتے۔

’بہت سے مہاجر مزدور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہیں جس کے باعث انھیں حکومتی سکیموں سے آگاہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مزدور اور تعمیراتی ادارے ہمارے ساتھ باضابطہ طور پر رجسٹر ہوں تاکہ ان کو مناسب معاوضے مل سکیں۔‘

کیسری لعل 20 سال سے مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے صحت اور حفاظتی سکیموں کے بارے میں سنا ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہ ان تک کیسے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہماری مدد کرے اور یہ بھی کہ ہماری طرف اپنے رویے میں تبدیلی لے کر آئیں۔‘

وہ شکایت کرتے ہیں ’ہمیں اچھوت تصور کیا جاتا ہے۔ ہم سے کوئی اچھے طریقے سے بات بھی نہیں کرتا۔ بھلا انھیں کیا پتہ کہ جن شاندار گھروں میں وہ رہ رہے ہیں انھیں ہم نے اپنی جان پر کھیل کر بنایا ہے اور وہ بھی ایسے گھر جن میں رہنے کا ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے‘۔

تصاویر اور اضافی رپورٹنگ: انکِت شری نواس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp