وزیر اعظم عمران خان کا ایک بڑا کمال


گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ترکی کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے سیکولر جمہوری مملکت جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک کے مزار پر حاضری دے کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ عمران احمد خان نیازی بڑے کمالات کے حامل رہنما ہیں جنہوں نے ورلڈ کرکٹ کپ سے لے کر اب تک کئی کمالات کر دکھائے ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا قیام بھی ایک کمال ہے۔ ان کا اب تک سب سے بڑا کمال ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نواز لیگ اور پی پی پی اور ایک بڑی مذہبی جماعت یعنی جمیعت علمائے اسلام کو عام انتخابات میں ٗ ہرا کر ٗ اقتدار حاصل کر کے ”نیا پاکستان“ بنانا ہے۔ اس سے قبل پانامہ لیکس کے اسکینڈل کو بامِ عروج تک پہنچا کر ہیوی مینڈیئٹ وزیراعظم نواز شریف کو گھر اور پھر جیل بھیجنا بھی ایک ”بڑا“ کمال ہے۔

ان کمالات سے بڑا کمال وزیراعظم صاحب نے کمال اتا ترک کے مزار پر حاضری دے کر کیا ہے۔ شاید قارئین ان کے اس عمل کو اہمیت نہ دیں لیکن میرے خیال میں ان کا یہ عمل غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور کیونکر ہے اس کے لئے چند گزارشات اتا ترک کے متعلق ہیں۔ مصطفیٰ کمال وہ شخص ہے جس نے 1924 میں ترکی میں گزشتہ 600 سال سے قائم اسلامی دنیا کی واحد عظیم خلافت خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا تھا۔ یہ عثمانی خلافت 1299 میں ایک ترک جاگیردار عثمان نے قائم کی تھی۔ مصطفیٰ کمال نہ صرف عثمانیہ خلافت ختم کر کے کمال کر دیا بلکہ اس نے اسلام اور مسلم دشمنی میں ایسے ایسے شرمناک کمالات دکھائے کہ تاریخ میں ایسی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی

مصطفیٰ کمال نے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی کی خلافت ختم کرنے کے ساتھ ہی ترکی میں اسلامی اور شرعی قوانین پر پابندیاں عائد کر دیں۔ نماز روزہ حج زکوٰۃ اور قرآن پر بھی سختی کے ساتھ پابندی عائد کر دی۔ پورے ملک کی مساجد بند کر کے تالے لگوا دیے اور اذان پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ملک میں سیکولر یعنی لادینیت کا نظام نافذ کر دیا گیا۔ اس دوران مزاحمت کرنے والے ہزاروں شہریوں کو قتل اور زندان کے حوالے کر دیا گیا۔

کمال اتا ترک کے دستِ راست عصمت انونو نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے مسجدوں کو میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ ہرجگہ اور ہر سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں لادینیت کو فروغ دیا جانے لگا۔ تقریباً 60 سال بعد اسلام پسند رہنما رفاہ پارٹی کے سربراہ نجم الدین اربکان نے تنظیمی سرگرمیاں شروع کر دیں جبکہ اس سے قبل منتخب وزیراعظم عدنان میندرس کو اسلام پسندی کے جرم میں سیکولر ترک فوج نے پھانسی چڑھایا۔

کافی عرصہ بعد آہستہ آہستہ حالات میں تبدیلی آتی گئی ترک شہریوں کی اسلامی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک وقت یہ بھی آیا کہ اسلام پسندوں کی اکثریت ہو گئی۔ ایک بار پھر سامراجیت پر اسلام پسندوں کا غلبہ ہو گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ رجب طیب اردوان کی قیادت میں اسلام پسند جماعت منظم ہو گئی ہے۔ سیکولر نظام لڑکھڑانے لگا ہے۔

ترکی میں صحابہ کرام رضہ اور برگزیدہ ہستیوں سمیت اسلامی جرنیلوں کے بھی مزارات ہیں۔ صوفی ازم کے بانی حضرت مولانا رومی رح سلطان محمد فاتح رح سلطان سلمان اور سلطان عبدالحمید ثانی وغیرہ کے مزارات بھی ترکی میں واقع ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے آنے والے لوگ ان کے مزارات پر حاضری دے کر اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ان میں سے کسی ایک بھی شخصیت کے مرقد پر حاضری دینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ اس کے برعکس اسلام مخالف اور سیکولر ازم کے حامی مصطفیٰ کمال کے مزار پر حاضری دے کر ان سے اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ میری نظر میں وزیر اعظم صاحب کا بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمل سے اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے کہ ان کا کسی مخصوص گروہ یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پسند اور سوچ ہر ایک کی اپنی ہے جس میں کوئی کسی کا پابند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے مصطفیٰ کمال کے مزار پر حاضری دے کر شاید ترکی میں اسلام پسند اور سیکولر ازم کے حامی طبقوں کے درمیان پُل بن کر قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).