لوگوں کی اقسام


زندگی کے نشیب و فراز کو طے کرتے ہوئے انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے اور مختلف قسم کی شخصیات سے شناسا ہوتا ہے۔ ان لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو دنیا میں صرف خدمتِ خلق کرنے اور دوسروں کے لئے جینے آتے ہیں۔ یہ لوگ برفیلے علاقوں میں برفباری کے بعد بننے والی اُس دبیز، نازک اور کچی چادر جیسے ہوتے ہیں، جو کہ ہلکا سا پاؤں رکھنے یا وزن ڈالنے سے ٹوٹ جاتی ہے اور پھر ٹوٹتی ٹوٹتی نیچے گہری کھائیوں میں جا کر دم لیتی ہے اور پھر اُس کے بعد اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔

یہ لوگ بالکل شہد کے اُس ایک قطرے جیسے ہوتے ہیں جو ایک سو گندی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر انہیں مٹھاس میں جکڑ لیتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اُڑ کر کہیں نہیں جا سکتی۔ ایسے لوگ اُس پھول کی مانند ہوتے ہیں جو کہ کچھ فاصلے سے بھی اپنی خوشبو دوسروں تک پہنچاتے ہوئے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے رہتے ہیں۔

اور کچھ لوگ اُن پتھریلی اور چٹانی ڈھلوانوں اور پہاڑی راستوں کے وہ پتھر ہوتے ہیں جو کسی کے کام کبھی نہیں آ سکتے، اُن کا کام ہی صرف راہگیروں کو ٹھوکریں دے کر اُن کے پاؤں زخمی کرنا اور اُن کے راستے کی رکاوٹ بننا ہوتا ہے۔ یہ لوگ خود تو پتھر کی طرح ساکن ہوتے ہیں اور خود میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے مگر دوسروں کی مشکلات کا سبب ضرور بنتے ہیں۔ ایسے لوگ اُس مچھلی جیسے ہوتے ہیں جو کہ ساری زندگی پانی میں رہتی ہے اور نہاتی ہے مگر اُسکی بدبُو پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پانی کا سا مزاج اور وقت کے ہر دھارے کے ساتھ بہنے اور ہر طرح کے ماحول اور محفل میں سمانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بالکل پانی جیسے ہوتے ہیں جو گرم علاقوں میں بخارات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور ٹھنڈے علاقوں میں بارش بن کر برس جاتے ہیں اور برفیلی چوٹیوں پر برف کی شکل اختیار کر کے خود کو انہیں یخ بستہ چوٹیوں کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اندازِصباحت بہت دلفریب ہوتا ہے، یہ بخارات کی صورت میں اُڑتے ہوئے بادل کا اِک حسین ٹکڑا محسوس ہوتے ہیں۔ بارش کی صورت میں برستے ہوئے بہت بھلے لگتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی صورت جم کر، سورج کی کرنیں پڑنے پر چوٹی کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہ بے ضرر اور زندہ دل لوگ ہوتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو خالقِ کائنات نے یہ شرف بخشا ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سُنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرنا ہوتا ہے۔ سامنے والا بندہ بے شک مر جائے مگر انہیں یہ زحمت گوارا ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسان بسا اوقات حالات کے پیشِ نظر بہت سی باتیں کہہ نہیں رہا ہوتا، اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ اس طرح دوسروں پہ یقین کرنے والے اپنی منشاء کے مطابق خود ہی سوال پیدا کرتے ہیں اور پھر خود ہی اپنی توقعات کے مطابق جواب بھی ڈھال لیتے ہیں۔ ایسے کبھی بھی زندگی میں کسی پر یقین نہیں کر سکتے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کو پسِ پُشت ڈال کر سارا ملبہ سامنے والے پر گرا دیتے ہیں اور اگلے بندے کو جھوٹا، دھوکے باز، کائنات کا فریبی ترین انسان ثابت کرنے میں کوئی کَسر باقی نہیں چھوڑتے۔ اُن کے سینے میں غم و غصہ ایک لاوے کی مانند پکتا رہتا ہے اور اُسکی حدت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ ٹھنڈی وادیوں کی یخ بستہ چوٹیوں پر جا کر بھی سینے میں جلنے والی آگ کی تمازت کو کم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

پھر یہ نوک قلم سے ایسے تیر برساتے ہیں کہ میدانِ جنگ بھی شرما جائے۔ دلکش اور حسین وادیوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر بیٹھ کر نفرت کی آگ کو سرد کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے الفاظ کے نشتروں سے ایسے کچوکے لگاتے ہیں کہ پڑھنے والا اُن کی اذیت سے دوچار ہی رہے۔ ایسے لوگ بلا کے ذہین ہوتے ہیں، اُن سے فقط اتنا ہی کہوں گا کہ: ”چاہ مر جائے ناں، تو پرواہ کا بھی انتقال ہو جاتا ہے“۔

انسانوں کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے جو کہ طلسماتی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دل کے کوڑھے ہوتے ہیں خود کو دوسروں کے سامنے کانچ یا پتھر کا ایک خوبصورت مجسمہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور دیکھنے والا اُن کے سحر میں گرفتار ہو کر اُن کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جب بھی یہ کانچ یا پتھر کا مجسمہ ٹوٹا تو مجھے نقصان ہی پہنچائے گا۔ یہ لوگ بڑی خوبصورتی سے دو لوگوں کے درمیان حائل ہوتے ہیں اور پھر اس قدر صفائی سے اُن میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اُنکے تعلقات خراب کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور بالآخر اپنی مہارت کا لوہا منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہ لوگ ہمیشہ دوسروں کو استعمال کرتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کی حد تک ہی اپنے تعلقات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ طبقہ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، ایسے طبقے کا شجرہِ نسب بنی خزرج سے تعلق رکھنے والے ”عبداللہ بن اُبئی“ سے ملتا جو کہ منافقین کا سردار تھا۔ ایسے لوگوں کی شر سے خدا ہی ہمیں بچائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).