عقل بڑی کہ بھینس؟


آج کا عنوان کچھ عجیب لگا تو ذہن میں خیال آیا کہ اگر ہمارا وزیر اعظم کٹے کٹیوں، بھینسوں، انڈوں اور مرٖغیوں کی باتیں کر سکتا ہے تو ہم کیوں گائے بھینسوں کا تذکرہ نہیں کرسکتے الناس علی دین ملو کہم۔ تیسری جماعت کا ایک چھوٹا سا بچہ جس سے اس کے دادا نے پوچھا بیٹا بتاؤ عقل بڑی کہ بھینس؟ بچے نے لمحے بھر کے لیے سوچا اور پھر بولا دادا جی بظاہر تو بھینس بڑی لگتی ہے لیکن اگر عقلمندی کے فیصلے دیکھیں تو عقل کہیں بڑی اور طاقتور چیز ہوتی ہے دادا نے تو گلے لگایا سو لگایا لیکن درویش نے عقل شعور یا لاجک کو ایسے پلے باندھا کہ زندگی بھر ہر چیز کے مقام یا وزن کو اسی کسوٹی پر تولا یا پرکھا اور آج بھی اپنے اہل وطن کی خدمت میں درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ بھینس یا بھینسے کے جثے پر نہ جائیں شعوری باریکیوں کی فتوحات پر نظر کرم ڈالیں۔

انڈین سوسائٹی کی تمامتر تنگ نظری پر مبنی کہانیوں کے باوجود یہ اس کی تکثیر پسندانہ عظمت ہے کہ وہاں ایک ریٹائر جج قومی میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر گاؤ ماتا جپنے والوں کو نہ صرف گدھے کہہ رہا ہے بلکہ اس سے چار قدم آگے بڑھ کر اس ”ماتا“ کے متعلق کھلے بندوں یہ بولتا ہے کہ میرے لیے اس کی حیثیت کتے اور گھوڑے جیسے جانوروں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ آئین کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ اپنی حکومت کے دماغ کی خرابی یا عقل و شعور کے استعمال نہ کرنے کا رونا روتا ہے۔

ہم انڈین سماج، کلچر، حکومت بلکہ پوری بھارتی قوم پر جتنی مرضی بوچھاڑ کر سکتے ہیں جیسی جیسی لعنتیں چاہیں ڈال سکتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی ادارہ نہیں کوئی بُرے سے بُرا ایڈیٹر نہیں جس کے ضمیر پر ذرا سی خلش کیا خارش بھی ہو انڈیا کے خلاف ہر بونگی سے بونگی چیز چھپ سکتی ہے بولی جا سکتی ہے صرف انڈیا ہی نہیں، امریکا برطانیہ کے خلاف بھی جیسی چاہیں ہانکیں کسی کو کوئی اخلاقی ضابطہ یاد آئے گا نہ کوئی مسلمہ اخلاقی وصحافتی اصول۔

مہذب جمہوری اقوام تو رہیں ایک طرف، اپنے تین دہائیوں پر محیط کئریر کا نچوڑ ہے کہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر دیگر تمام ادیان کی طریقے کے ساتھ ایسی تیسی پھیر دو کسی کی نکسیر پھوٹنا تو دور کی بات پسینہ بھی نہیں آئے گا الٹے دانت نکلیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم خود ستائی کے مارے لوگ ہیں۔ ہمارے سارے اخلاقی معیارات و تقدسات محض اپنے لیے یا اپنے عقائد و نظریات کے لیے ہیں ان پر کوئی ہلکی سی آنچ آنے کا شائبہ بھی پیدا ہو جائے تو عرب دوشیزہ کے نازک جذبات مجروح ہوجاتے ہیں ناموس ناموس کھیلنا ہی شروع نہیں کر دیتے ہیں بات حق و باطل کی جنگ تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسروں کی بھیڑیں ہماری طرف آئیں تو راہِ ہدایت پر آمد کہلائیں ہماری دوسری طرف جائیں تو گمراہ و مرتدین قرار پائیں۔ اخلاقیات کے یہ دھرے معیار آخر کن پارساؤں نے تیار کر رکھے ہیں؟

جمہوری ممالک و اقوام کے خلاف منافرتیں پھیلانے کی جو کھلی چھوٹ ہے اس نوع کی دریا دلی کا مظاہرہ کیا ہم کسی غیر جمہوری مملکت کے متعلق بھی کر سکتے ہیں چاہے وہ مذہب کے لبادے میں ہو یا سوشلزم کے پیرہن میں۔ یہاں تو ان کے نام چھاپنے کا یارا بھی کسی میں نہیں ہے۔ ہم بحیثیتِ قوم یہ سوچیں کہ آخر ہم نے اس نوع کے دھرے معیارات کس مجبوری کے تحت قائم کر رکھے ہیں؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ آج کی دنیا کفرو اسلام یاحق و باطل کی جنگوں سے کہیں آگے نکل چکی ہے اس کرہ ارضیٗ پر آباد افراد و اقوام کی ساری تگ و دو معیشت کی مسابقت میں ہے۔ رہ گئے اخلاقی و مذہبی ضوابط، ان کی تقسیم محض ظالم و مظلوم یا جبرو آمریت بمقابلہ ڈیموکریسی و ہیومن رائٹس تک ہے۔ مسئلہ محض اقوامِ عالم کا نہیں ہے ہم اندرونِ ملک اپنی قوم میں فی الواقع موجود ان ہر دو گروہوں یا اپروچوں کا تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں۔

متحدہ ہندوستان میں مسلم میجارٹی خطوں کی بدولت علیحدہ مسلم مملکت کی سوچ اس لیے ابھرتی تھی کہ ہم کاروباری یا معاشی سرگرمیوں میں ہندو کاروباری طبقات کی مسابقت کے قابل نہ تھے۔ اگرچہ اس جد و جہد کی قیادت جمہوریت پر ایمان رکھنے والے ایک سیاستدان نے کی تھی مگر اسی عرصہ میں جب اس نوزائیدہ مملکت کی بنیادیں استوار کی جارہی تھیں یہاں جبر یا جمہوریت کی دو سوچیں ابھر کر سامنے آگئی تھیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پورے 9 برس تک کوئی آئین نہ بن سکا اور اگر رو دھو کر بنا تو دو سال بھی نہ گزار سکا جبکہ ہمارے بالمقابل ہندوستان کی جمہوری تاریخ اتنی درخشاں ہے کہ پنڈت نہرو جیسے قد آور جمہوری قائد کی رہنمائی میں آزادی کے فوری بعد نہ صر ف تمام مختلف الخیال طبقات کے لیے قابلِ قبول سیکولر جمہوری پارلیمانی آئین بن گیا بلکہ پچھلی سات دہائیوں سے وہ اس طرح نافذ العمل ہے کہ کسی نام نہاد طاقتور میں کبھی یہ جرات پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ اس آئین یا پارلیمنٹ کو سبوتاژ کرنے کا سوچ بھی سکے۔ انسانی سماج میں عملی کوتاہیاں بلاشبہ اُن سے بھی ہوئیں اپنے ہمسائیوں کے جنوں کودیکھ کر اپنا چہرہ لال کرنے کی خواہش ان کے مذہبی جنونیوں میں بھی پیدا ہوئی لیکن سیکولر آئین کی کارفرمائی نے ہمیشہ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں پر یقین رکھنے والے کمزور سے کمزور طبقات کی دستگیری کی۔

ہمارے قائد نے نہ جانے کس جذباتی و سیاسی فضا میں یہ فرما دیا تھا کہ ہم نوزائیدہ مملکت کو مذہبی عقائد کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں ہم نے اپنے قائد کی دیگر ایک سو ایک لبرل باتوں پر کان دھرے ہیں یا نہیں البتہ اس مملکت کو مختلف النوع تجربات کی لیبارٹری ضرور بنا کر رکھ دیا ہے چار آئین ہی نہیں بدلے چار مرتبہ جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے ننگے مارشل لاء تک لگائے گئے جب نہیں لگائے گئے تب بھی پس پردہ رہ کر ایسی وارداتیں ڈالیں کہ جن پر مارشل لا ضوابط والے بھی شرما جائیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2