شکیل عادل زادہ بازیگر کی آخری قسط لکھ رہے ہیں


کئی روز کا بھوکا مزدور‘ مزدوری کی تلاش میں فرانس کے ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن جا رہا تھا۔ ریل گاڑی کے اُس ڈبے میں ایک اکیلی خاتون سفر کر رہی تھی، جس میں وہ شخص سوار ہوا تھا۔ اب یاد نہیں پڑتا، کِہ وہ مرد اس عورت کو سامنے کیوں جا بیٹھا تھا‘ جب کِہ کمپارٹمنٹ کی سب نشستیں خالی تھیں۔ میں نے بہت پہلے یہ کہانی پڑھی تھی‘ اِس وقت محض اپنی کم زور یاد داشت کے زور پر یہ فسانہ نقل کر رہا ہوں۔ اس فسانے کو کہنے والا کوئی عام داستان گو نہیں‘ فرانسیسی ادب کا مایہ ناز سپوت گائے ڈی موپساں ہے۔

وہ دونوں ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ عورت مزدور کو بتاتی ہے‘ کِہ وہ دائی ہے‘ اور اُجرت پر ان بچوں کو دودھ پلاتی ہے‘ جن کی ماوں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اُترتا‘ یا کسی بیماری کی وجہ سے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں۔ اس وقت بھی وہ کسی ایسی مزدوری پر جا رہی ہے۔ باتوں باتوں میں یہ بھی بتاتی ہے‘ کہ اس کی چھاتیوں میں عام عورتوں کی نسبت زیادہ دودھ اُترتا ہے۔ عورت بار بار اپنا ہاتھ اپنے سینے تک لے جاتی ہے‘ بے چینی سے پہلو بدلتی ہے؛ جب کہ غیرت مند مزدور کنکھیوں سے اس ٹوکری کو دیکھتا ہے‘ جس میں پھل رکھے ہیں۔ بھوکے کو کیا چاہیے ہوتا ہے؟ دو سیب! مزدور کی بھوک‘ عورت کی بے چینی کو موپساں نے اس سلیقے سے بیان کیا ہے‘ کِہ کم از کم میرا دھیان اس طرف نہیں گیا‘ جو کہانی کے انجام میں دکھایا گیا ہے۔ مجھے لگا‘ کِہ مزدور اگر اس عورت کو ہراساں نہیں کرے گا‘ تو پھل ضرور چھین لے کھائے گا‘ یا عورت کوئی چال باز نکلے گی۔

سفر جاری ہے‘ اور دایہ کی تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے‘ کہ جب اس کے پستانوں میں دودھ اُترتا ہے‘ تو یہ تکلیف اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے‘ جب تک کہ شِیر خوار اپنی غذا نہ لے لے۔ پھلوں کی اشتہا مزدور کے صبر کا پیمانہ لب ریز کر رہی ہے۔ وہ اپنی ہم سفر کو بتائے بغیر نہیں رہ پاتا‘ کِہ وہ کئی روز کا بھوکا ہے۔ عورت اس کی طرف سوچتی نظروں سے دیکھتی ہے‘ پھر اپنے گریبان کے بٹن کھول دیتی ہے۔ مزدور گھٹنوں کے بل  ہو کے اس کے پستان پر لب رکھ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر منہ لگائے رکھتا ہے‘ اور اُٹھ کر اپنی جگہ بیٹھتے‘ عورت کو ’’شکریہ‘‘ کہتا ہے۔ عورت پر سکون ہو جاتی ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورت پوری کر دی۔

گائے ڈی موپساں کی اس کہانی کا اردو ترجمہ غالباََ ستر کی دہائی میں ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ میں شایع ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے‘ یہ کہانی سنانے میں کچھ اوپر تلے ہو گیا ہو‘ لیکن اس فسانے کا انت یہی ہے۔ اس میں موپساں نے ’بھوک‘ کے سامنے ہر جذبے کو ہیچ بتایا ہے۔ ایک دن ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کے دفتر میں بیٹھے‘ موپساں کا ذکر چل نکلا‘ تو میں نے شکیل عادل زادہ کو ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ میں چھپنے والی یہ کہانی یاد دلائی۔ وہ چونکے جیسے کچھ بھولا یاد آیا ہو۔

انھوں نے بتایا‘ کِہ اس زمانے میں ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ اپنے عروج پر تھا۔ یہ نہیں‘ کِہ اس زمانے میں انھوں نے صرف کام ہی کیا‘ رُپیا پیسا ہی کمایا‘ وہ سب رنگ دوستوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کبھی کہیں‘ تو کبھی کہیں جاتے تھے۔ موپساں کی اس کہانی کو یاد دلانے پر فرمایا‘ ایک بار ریل کے سفر میں ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی‘ جب اسے پتا چلا‘ کِہ ہمی ’’سب رنگ‘‘ کے مدیر شکیل عادل زادہ ہیں‘ تو وہ کہنے لگیں‘ پہلے ہمارے یہاں ’’سب رنگ‘‘ آتا تھا‘ لیکن اب نہیں آتا۔ مدیر کا وجہ معلوم کرنا فطری تھا۔ استفسار پر اس لڑکی نے موپساں کی اسی کہانی کا حوالہ دیتے کہا‘ کِہ میرے والد صاحب نے جب ڈائجسٹ میں یہ کہانی دیکھی‘ تو گھر میں ’’سب رنگ‘‘ کا داخلہ بند کرا دیا گیا۔ شکیل عادل زادہ نے کہا‘ کِہ وہ دِن اور آج کا دِن‘ ہم نے ’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ چھاپتے اس بات کو مدِ نظر رکھا‘ کِہ کوئی ایسی شے نہ چھاپی جائے‘ جو چاہے کتنی اچھی ہو‘ لیکن کسی گھر میں ’’سب رنگ‘‘ کا داخلہ بند کرا دے۔

کل ایک مدت کے بعد‘ شکیل عادل زادہ سے فون پر بات ہوئی؛ بیٹھے ’’بازی گر‘‘ کی آخری قسط پر کام کر رہے تھے۔ یہ بات مجھے شکیل عادل زادہ ہی نے سکھائی ہے‘ کِہ سوال سبھی احمقانہ ہوتے ہیں؛ لیکن جواب احمقانہ نہیں ہونے چاہیے؛ سو ان سے یہ احمقانہ سوال پوچھا کِہ ’’بازی گر‘‘ کے کتنے صفحات لکھ لیے ہیں؟ مردِ دانا نے جواب دیا، ’’بتیس صفحات‘‘۔ بات چیت کرتے اس نکتے پہ ہمارا اتفاق رہا‘ کِہ کچھ معلوم نہیں‘ ابھی اور کتنے صفحات میں ’’بازی گر‘‘ سمٹے گی۔ پھر بھائی شکیل نے کہا، آج شاہد صدیقی نے اپنے کالم میں ’’سب رنگ‘‘ کا ذکر کیا ہے‘ وہ پڑھ لینا۔ کال ختم ہوئی‘ تو میں نے شاہد صدیقی کا کالم ’’مری کی ایک شام‘‘ دیکھا۔ اس سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

’’دکان میں مجھے ایک لڑکی ملی‘ جس نے ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑے پہنے تھے‘ اس نے ’سب رنگ‘ میں چھپنے والی ایک کہانی کے حوالے سے اپنے تحفظات کااظہار کیا۔ وہ کہنے لگی کہ سب رنگ ہمارا پسندیدہ ڈائجسٹ ہے اور ہم چاہتے ہیں‘ اس میں کوئی ایسی چیز نہ چھپے‘ جس پر کوئی اعتراض کر سکے۔

اس کے لہجے میں اپنائیت اور اعتماد کی روشنی تھی۔ شکیل بھائی کہتے ہیں‘ کِہ میں نے وہ نصیحت پلے باندھ لی ہے۔ جاتے جاتے اس لڑکی نے شکیل بھائی سے کہا‘ کِہ آپ اپنی قسط وار کہانی کو کب مکمل کریں گے؟ شکیل بھائی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ آج میں اکیلا مال روڈ سے نشیب کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے کتابوں کی دُکان کو دیکھا اور مجھے شکیل عادل زادہ کی یاد آ گئی۔ میرے قدم خود بخود اس دُکان کی طرف اٹھنے لگے؛ میں سوچ رہا تھا‘ کِہ اگر سب رنگ کی شیدائی‘ ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑوں والی وہ لڑکی مجھے اس دُکان میں مل جائے‘ تو میں اسے بتاوں گا‘ کِہ ’بازی گر‘ کی آخری قسط لکھی جا رہی ہے۔ یہ قسط ایک طویل قسط ہو گی۔ شکیل عادل زادہ کا آخری شاہ کار۔ اس کے بیس پچیس صفحے لکھے جا چکے ہیں‘ اسی سال ’بازی گر‘ اپنے اختتام کو پہنچے گی‘‘۔

یہ سطریں پڑھتے‘ ایک تو مجھے موپساں کی یہی کہانی اور وہ لڑکی یاد آئی‘ جس کا ماجرا اوپر بیان ہوا۔ شاید یہ ہلکے آسمانی رنگ کے لباس والی نازنین وہی لڑکی ہو‘ جس کا بھائی شکیل نے تذکرہ کیا تھا‘ کِہ اس کے والد نے گھر میں ’’سب رنگ‘‘ کا داخلہ بند کرا دیا تھا۔ لیکن نہیں‘ وہ نازنین تو بھائی شکیل کو ٹرین میں ملی تھی! اگلی بار شکیل عادل زادہ سے بات چیت ہوئی‘ تو شاید ان سے پوچھ بھی لوں‘ کیا یہ وہی لڑکی ہے! شاید نہ بھی پوچھوں! وہ ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑے پہنے لڑکی اتنی اہم کیوں ہے‘ کِہ اُس کے بارے میں سوچا جائے؟ شاید یہ سنبل کوئی اور ہو‘ کوئی اور ہی ہو گی۔ سنبل‘ نازنین‘ گل بدن‘ یاسمن‘ زریں‘ مہ جبیں‘ سیکڑوں ہیں‘ ہزاروں ہیں؛ شکیل عادل زادہ کو چاہنے والے‘ چاہنے والیاں؛ کوئی ایک تھوڑی ہے!

مجھے شاہد صدیقی کی طرح‘ اس ہلکے آسمانی رنگ کے لباس والی لڑکی کی تلاش نہیں‘ کِہ میں نہیں چاہتا ’بازی گر‘ مکمل ہو؛ انتظار؟ کبھی تھا ہی نہیں۔ ہر قصہ مکمل ہونے کے لیے تھوڑی ہوتا ہے! کچھ کہانیاں ادھوری رہنی چاہیے۔ پھر یہ بھی تو سوچیں‘ کِہ وہ ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑے پہنے لڑکی‘ اب بوڑھی ہو چکی ہو گی۔ ایسے ہی یہ کون جاننا چاہے گا، کِہ ’’بازی گر‘‘ کے ’بابر زمان خان‘ کی ’کورا‘ آج کل کس احوال میں ہے؛ مجھے یہ جاننے میں قطعی دل چسپی نہیں ہے‘ کیوں کِہ نہ جاننے کا اپنا حسن ہے؛ اسرار میں دل کشی ہے۔ کورا اور بابر زمان خان آپس میں مل گئے‘ تو راحتِ جاں زریں کا کیا ہو گا؟ یاسمن کہاں جائے گی؟ یہی وجہ ہے‘ کِہ میں نے اس فون کال پر‘ بھائی شکیل کو غیر محسوس طریقے سے اُکسایا، کِہ وہ ’’بازی گر‘‘ کا اختتام کرنے میں جلد بازی نہ کریں‘ اور بس لکھتے چلے جائیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran