یہ عمارتِ کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے


ہم میں سے کسی کے لیے بھی یہ کوئی نئی خبر نہیں کہ ملک سے باہر چلے جانے والے بعض خاندان اپنی روایات کو بچانے کے لیے اپنی بیٹیوں کی شادیاں پاکستان میں ہی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر حد وانتہا سے گزر جاتے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر واقعات انگلستان میں جا کر آباد ہونے والے ان خاندانوں سے متعلق ہیں جن میں سے زیادہ تر دیہی پس منظر رکھتے ہیں ۔تمام افرادِ خانہ مل کر اپنی پڑھی لکھی بیٹیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ڈگریوں کو چولہے میں جلا کر ان سے اپنی میت نہلانے کے لیے پانی گرم کریں ۔

اپنے باپوں ، بھائیوں اور چچاؤں کی عزت کی قربان گاہ پر خاموشی سے قربان  ہو جائیں۔

ایک نہیں ، دو نہیں ، چار نہیں، المناک واقعات کے انبار ہیں جن سے لہو رستا ہے۔کبھی باپ اور بھائی نے یقین دلایا ، تم گھر واپس تو چلو وہاں سب تمہاری راہ دیکھتے ہیں ، تم جو چاہوگی ، وہی ہوگا ۔ کبھی دادی اور ماں ان پر واری صدقے گئیں کہ مجال ہے جو کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھے ۔

وہ جب خون کے رشتوں سے ملنے کی چاہ میں واپس آئیں توکسی سیم تن کے ٹکڑے کیے گئے اور اسے وطن کی مٹی میں دفن کردیا گیا۔کوئی اپنے مسلمان شوہر اور بچے کوگھر والوں سے ملانے لائی تو ان سب کو خاک میں ملا دیا گیا۔ تمہاری یہ ہمت ، یہ جرات کہ اپنی پسند کا بر تلاش کرو۔ لاکھ وہ مسلمان ہو، شریف و نجیب ہو لیکن ہمارا انتخاب تو نہ تھا ۔

ہماری شاعرات نے کیسی کیسی دل دوز نظمیں لکھیں ۔ زہرا نگاہ اورکشور ناہید سے عطیہ داؤد اور فاطمہ حسن تک سب ہی نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبوکر غیرت کے نام پر قتل ہونے والیوں کے مرثیے لکھے ۔ نسیم سید نے لکھا :

بات بے بات یہ طعنہ یہ ملامت کیا ہے

یہی ہوتی ہے محبت تو … عداوت کیا ہے

کروٹیں لیتا ہے ہر درد تیرا صبح تلک

چاندنی رات سے اے دل تجھے وحشت کیا ہے

ایک اس کے لیے کتنوں سے برائی لے لی

اب خدا جانے اسے مجھ سے شکایت کیا ہے

اک یقیں کی ہے حرارت کہ کوئی ہے اپنا

اور اس کے سوا جسموں میں حرارت کیا ہے

جب زمینوں سے نئی کوئی تعلق ہی نہیں

کوئی پوچھے ہمیں ہجرت کی ضرورت کیا ہے

یہ بھی نسیم نے لکھا:

میں …

اگر جاں کی امان پاؤں …

تو کچھ عرض کروں …

بے سبب آپ جو رہتے ہیں پریشان سے کچھ

جیب میں رکھتے ہیں

تعزیرکے سامان سے کچھ

حبس میں تازہ ہواؤں کو چنا کرتے ہیں

فاختاؤں کے لیے

جال بنا کرتے ہیں

میں تو حیران ہوں

کیا آپ کو اندازہ نہیں

خوش نمو

حبسِ زمیں سے بھی نمو لیتا ہے

دام کا خوف بھی …

پرواز بڑھا دیتا ہے

ایسی ہی لڑکیوں کے لیے فہمیدہ ریاض نے آج سے 4دہائیوں پہلے لکھا :

سنگدل رواجوں کی

یہ عمارت ِ کہنہ

اپنے آپ پر نادم

اپنے بوجھ سے لرزاں

جس کا ذرّہ ذرّہ ہے

خود شکستگی ساماں

سب خمیدہ دیواریں

سب جھکی ہوئی کڑیاں

سنگدل رواجوں کے

خستہ حال زنداں میں !

اِک صدائے مستانہ !

ایک رقصِ رندانہ !

یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے

ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ یہ لڑکیاں اگر بروقت دہائی دیں تو برطانوی ہائی کمیشن ان کی مدد کو پہنچتا ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ اپنے افسروں کو پاکستان بھیجتی ہے اور ان لڑکیوں کو ظلم و ناانصافی کے چنگل سے چھڑانے کی اپنی سی کوشش کرتی ہے۔ انگلستان میں ان کے اہل خانہ پر جرم ثابت ہوجائے تو وہ گرفتار ہوتے ہیں اور سزا کو بھی پہنچتے ہیں ۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن اور وزارت خارجہ کے افسران کے دباؤ پر پاکستانی حکام کو بھی کچھ نہ کچھ کار گزاری دکھانی پڑتی ہے ۔

ان اندوہناک واقعات کے پیچھے ایک اور مسئلہ بھی ہے جس سے وہ لڑکیاں دوچار ہوتی ہیں جو برطانوی سرکارکی کوششوں سے بچ جاتی ہیں ۔ اس بارے میں بنجمن ملرکی ایک رپورٹ نظر سے گزری جس سے ان پریشان حال لڑکیوں اور عورتوں کی مالی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے ۔

دراصل یہ واقعات اتنے تواتر سے ہوئے کہ حکومت برطانیہ کو اندازہ ہوا کہ یہ معاملات اس کے خزانے پر بار ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے یہ طے کیا کہ ایسے قضیوں کو نمٹانے کے بعد اس صورتحال سے دو چار ہر لڑکی کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ہزار ڈالر چھ مہینے میں ادا کرے گی ۔ وہ لڑکیاں جوکہیں کام نہیں کر رہیں، پریشان ہیں کہ حکومت کہیں ان کے یونیورسٹی کے قرض سے یہ رقم نہ کاٹ لے۔

یہ خبر موقر برطانوی اخباروں میں شایع ہوگئی جس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ 2017ء میں 27لڑکیوں کو واپس انگلستان لایا گیا تھا جب کہ 2016ء میں ان کی تعداد 55 تھی ۔ ٹائمز آف لندن کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی لڑکیوں کی ہے ۔

پارلیمنٹ کے ممبروں اور اس مسئلے پر کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ لڑکیاں جو خود مسائل کی دلدل میں ہیں، وہ ایک برطانوی شہری کے طور پر حکومت برطانیہ سے مدد نہ مانگیں توکس کے پاس جائیں۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں حکومت کے اس رویے پر معترض ہیں۔

صرف پاکستانی لڑکیاں ہی اس مشکل میں گرفتار نہیں ہیں۔ صومالیہ سے تعلق رکھنے والی 4 مسلمان عورتوں کا مسئلہ بھی برطانوی حکومت کے لیے دردِ سر ثابت ہوا ۔انھیں صومالیہ کے انتہا پسندوں نے پکڑکر قید کرلیا جہاں وہ زنجیروں سے باندھ کر رکھی گئیں، انھیں روزانہ کوڑے لگائے جاتے اورکہا جاتا کہ وہ ان کے ساتھیوں سے شادی کرلیں ۔

برطانوی دارالعوام میں ان دنوں اس مسئلے پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ بیشتر اراکین کے خیال میں حکومت کو اس بارے میں درد مندی سے غور کرنا چاہیے۔برطانوی اخبارات بھی ان لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ہیں جن کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں اور اگر ان کو سرکارکی طرف سے ملنے والی یونیورسٹی فیس سے ان ہزار ڈالروں کی قسط وارکٹوتی شروع ہوجائے تو انھیں فاقہ کشی جیسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا ۔

گھر والوں کی نا مہربانیاں ، جان کو لاحق خطرات اور بچ کر محفوظ ماحول میں واپس آجائیں تو یہ مسائل ، یہ لڑکیاں کس عذاب میں ہیں اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ سوچنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ اتنا نا مہربان بلکہ ظالمانہ رویہ گھر والوں کی کیسی تصویرکشی کرتا ہے،کچھ تو وہ سوچیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).