بیٹی پڑھو ورنہ شادی کر دیں گے


ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب اولاد میں سے صرف اور صرف بیٹوں کو اہمیت دی جاتی تھی اور اس وقت بیٹی کو پیدا کرنا ایک گناہ کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا یا پھر مار دیاجاتا تھا۔ وہ جہالت کا دور تھا لیکن پھر حضرت محمدﷺ کی ولادت اور اسلام کی تبلیغ ہوئی تو بیٹی کو ایک خاص مقام دیا گیا۔ بیٹی والدین پر اللہ کی طرف سے رحمت بن کر نازل ہوئی اور اسلام میں اسی بیٹی کو جنم دینے والی ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی۔

موجودہ دور میں ہر ایک ملک میں عورت کے حقوق کے لئے تنظیممیں کام کر رہی ہیں۔ یہ سب عورت کو مرد کے برابرلانے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ عورتوں کو ہر معاشرے میں بہت سے حقوق مل بھی گئے ہیں جیسا کہ تعلیم، ملازمت کی آزادی اور برابری۔ اب تو ایک عورت کے لئے ہر ملک کی اسمبلی میں نشستیں بھی مخصوص ہیں اور وہ الیکشن بھی لڑ سکتی ہے۔

پاکستان میں بھی عورت کو خاص کر بیٹی کو بہت سے حقوق ملے ہیں لیکن پھر بھی اسے بیٹوں سے کم سمجھا جاتا ہے۔ اسے مکمل تعلیم حاصل کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے اور اسے بہت محدود کر دیا گیا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ ہر انسان ذہین نہیں ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ذہین ہوتے ہیں اور تعلیمی میدان میں آگے ہوتے ہیں لیکن اکثر کم ذہین ہوتے ہیں اورر وہ تعلیم کے علاوہ ہر میدان میں آگے ہوتے ہیں۔

میں ایک گاوٗں کا رہائشی ہوں جو کہ بالکل غیر ترقی یافتہ ہے وہاں سکول کوئی دوسال پہلے بنا ہے اس سے پہلے کوئی سکول نہیں تھا اور حالیہ چند سالوں میں لوگوں کے درمیان تعلیم کا شعور آیا ہے اور انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دی ہے۔

میں نے اکثر دیہات بلکہ شہر کے لوگوں کو تعلیم کے حوالے سے اپنی اولاد کو یہ ہدایت کرتے سنا ہے بلکہ یہ ہدایت کم اور دھمکی زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ دھمکی صرف دھمکی نہیں رہتی ہے بلکہ حقیقت کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ دھمکی میں نے کل سفر کرتے ہوئے دو عورتوں کی گفتگو کے درمیان سنی کہ میں نے اپنی بیٹی سے کہا ہے اگر وہ امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیاب نہ ہوئی تواس کی شادی کر دوں گی تو دوسری عورت نے اس کے عمل کو سراہتے ہوئے چند ایک دلیلیں دی۔

میں نے یہ دھمکیاں گاوٗں میں اکثر سنی تھی لیکن لاہور جیسے شہر میں ایسی باتیں سنیں تو مایوسی ہوئی۔ گاؤں میں اکثر والدین اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ اگر امتحان میں پاس نہ ہوا یا کم نمبر آئے تو کسی کام پر لگوا دوں گا۔ لیکن اس کے برعکس بیٹیوں کو شادی کی دھمکی کیوں دی جاتی ہے؟ اوران کی شادی بھی کر دی جاتی ہے۔ اگر بیٹی کبھی امتحان میں فیل ہو جائے یا نمبر کم آئے توکیا اسے کوئی اس کی زندگی کے متعلق ہنر نہیں سکھایا جا سکتا؟

ایسے کئی سوال میرے ذہن میں آتے ہیں کہ زندگی میں کئی مقامات پر عورت کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں کہ وہ فیصلے کر لے لیکن ایسا قدم جس سے بیٹی اپنی زندگی بہتر کر سکتی ہے اس میں اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ اگر بیٹی پڑھ نہیں رہی تو والدین اپنے کندھوں سے اس کا بو جھ اتارنے اوراس فرض کو ادا کرنے کے لئے اس کی شادی کم عمری میں کر دیتے ہیں لیکن وہی بیٹی ساری زندگی اپاہچ کی طرح انھی والدین کے کندھوں پر گزارتی ہے۔ ایسے موقع پر بیٹی کو سکھائے گئے ہنر کی قدر ہونا ہوتی ہے جوکہ والدین اسے سکھانے کی بجائے اس کی شادی کر دیتے ہیں۔

اگر بیٹا پڑھتا نہیں تو اس کو کام پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ کوئی ہنر سیکھ لے تاکہ زندگی میں آسانی سے رہے اور اپنا کما سکے۔ لیکن اگر ان والدین کو جو بیٹی کی شادی نہ پڑھنے پر یا فیل ہونے پر کر دیتے ہیں۔ اگرانھیں کہا جائے کہ بیٹے کی شادی کرو تو کہتے ہیں کہ وہ پڑھ جائے یا کوئی ہنر سیکھ کر کمانے والا ہو جائے پھر اس کی شادی بھی کر دیں گے۔ ان والدین سے پوچھا جائے کہ اگر بیٹے کی شادی بغیر کمائے نہیں کرتے ہو تو بیٹی کو کیوں بغیر کسی ہنر کی تعلیم کے خود مختار کیے بغیر بیاہ دیتے ہو؟ کیوں بیٹے کی طرح بیٹی کو بھی تعلیم یا زورگار کمانے کا ہنر نہیں دیتے ہیں؟ کیوں چھوٹی عمر میں بیٹیوں کی شادی کر کے ان کی زندگی برباد کر دیتے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).