خدا کی لاٹھی – لیو ٹالسٹائی کی کہانی


ساشا ایک کھاتا پیتا خوبرو نوجوان تھا۔ اس کا شمار ولاڈیمار کے ممتاز تاجروں میں ہوتا تھا۔ ایک دن اس نے ماسکو کے روشنیوں کے میلے میں جانے کا ارادہ کیا جہاں دوسرے شہروں سے اس کے اور تاجر دوست بھی آ رہے تھے۔ میلے کی صبح اس کی بیوی کیتھرین کچھ پریشان سی تھی۔ ساشا نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ”ساشا میں نے کل رات ایک برے شگون والے خواب میں دیکھا کہ تم میلے سے لوٹے ہو اور تمھارے سر کے سب بال سفید ہو چکے ہیں۔ تم آج نہ جاؤ ساشا“۔

ساشا نے اس کی بات ہنسی میں ٹال دی۔ ”تو بہت بھولی ہے کیتھرین، یہ تو اچھا شگون ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میری عمرلمبی ہے“۔ ساشا گھوڑاگاڑی میں بیٹھا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں اسے ولاڈیمارکا ایک اور سوداگر ملا۔ جو اسی سمت جا رہا تھا۔ رات گئے دونوں نے ایک سرائے میں اکٹھے ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ سرائے کے مالک نے انہیں دو کمرے ساتھ ساتھ دے دیے۔ ساشا نے اندھیرے منہ اٹھ کر کمرے کا بل ادا کیا اور میلے کی جانب روانہ ہو گیا۔

دو پہر کے وقت ساشا تھوڑی دیر کے لیے ایک سرائے میں رکا۔ کھانا کھایا، چائے پی، گھوڑے کو چارہ دیا اور گاڑی کے پہیے سے ٹیک لگا کر گٹار پر اپنا ایک پسندیدہ گانا گانے لگا۔ اتنے میں ایک اور گھوڑا گاڑی وہاں آ کر رکی۔ دو پولیس والے اترے۔ ایک اس کی جانبب بڑھا اور بڑی سختی سے اس سے پوچھا کہ وہ اتنی صبح اپنی سرائے سے کیوں فرار ہوا تھا۔ ”میں فرار کہاں ہوا تھا صاحب، میں تو صبح اٹھنے عادی ہوں، اس لئے جلدی نکل پڑا تاکہ میلے میں وقت پر پہنچ جاؤں“۔

ساشا نے پوچھاکہ آخر اس پر مجرموں کی طرح جرح کیوں کی جارہی ہے۔ ”اس لئے کہ جیسے ہی تم نکلے، سرائے کے مالک نے ہم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ تمھارے ساتھی سوداگر کی گردن کٹی لاش اس کے کمرے میں پائی گئی ہے۔ تفتیش کے لئے تم سے پوچھ گچھ کرنی ہو گی اور تمہارے سامان کی تلاشی بھی لینی ہو گی“۔ ایک افسرنے ساشا کا سامان ٹٹولنا شروع کر دیا۔ ابھی دو چار چیزیں ہی دیکھی تھیں کہ اچانک زور سے چیخ کر کہا۔ یہ چاقو کس کا ہے۔

اس پر تو خون جما ہوا ہے۔ ساشا بری طرح گھبرا گیا تھا۔ ”مجھ سے قسم لے لیں حوالدار صاحب، یہ چاقو میرا نہیں۔ “۔ ”دیکھو، آج صبح سوداگر اپنے کمرے میں قتل ہوا۔ سرائے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ تم واحد شخص تھے جو اس وقت سرائے میں تھے اور اندھیرے منہ وہاں سے نکلے۔ تمھارے علاوہ یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ اوراب تمھارے سامان سے یہ خون آلود چاقو بھی بر آمد ہوا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تم اقبال جرم کر لو اور ہمیں بتا دو کہ تم نے سوداگر کو کیسے قتل کیا اور کتنے پیسے چرائے“۔

ساشا نے قسمیں کھانی شروع کر دیں کہ اس نے قتل نہیں کیا۔ وہ معصوم ہے۔ اس کے پاس صرف آٹھ ہزار روبل ہیں جو وہ گھر سے لے کر نکلا تھا، اس کی آواز بھرا رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سچ مچ جرم اسی نے کیا ہے۔ پولیس نے ساشا کو رسیوں سے باندھ کر پولیس گاڑی میں لاد ا اور ساتھ والے قصبے میں لے جا کر حوالات میں بند کر دیا۔ تفتیش کے لئے پولیس کی نفری ولاڈیماربھیجی گئی جس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ شادی سے پہلے ساشا بہت شراب پیتا اور غلط صحبت میں رہتا تھا۔

اس پر الزام لگا کہ اس نے سوداگر کو قتل کیا ہے اور اس کے بیس ہزار روبل چرا ئے ہیں۔ ساشا کی بیوی انتہائی پریشان تھی۔ ۔ بچے بہت چھوٹے تھے۔ بڑی مشکل سے وہ ساشا سے ملنے کے لئے پہنچی۔ جیسے ہی اس نے ساشا کو زنجیروں میں بندھا دیکھا وہ وہیں بے ہوش ہو گئی۔ کافی دیر کے بعد جب ہوش آیا تو اس نے پچوں کو اپنے گرد جمع کیا اور ساشا کے پاس بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔ ”ساشا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس دن میلے میں مت جاؤ۔ لیکمن تم نے میر ی بات نہیں مانی۔ اب دیکھو ہم کس عذاب میں مبتلا ہیں“۔

پھر اس نے عجیب نظروں سے ساشا کی طرف دیکھا اور جھجک کر پوچھا، ”ساشا تم مجھے تو سچ بتا سکتے ہو۔ کیا واقعی تم نے سوداگر کوقتل کیا ہے؟ “
”تو اب تم بھی مجھ پر شک کرنے لگی ہو“ یہ کہ کر ساشا بالکل خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ اس نے اپنی بیوی سے مزید کوئی بات نہیں کی۔ جب جیل کے گارڈ نے کہا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے۔

بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اٹھی۔ ساشا کو خدا حافط کہا لیکن ساشا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ یہ میاں بیوی کی آخری ملاقات تھی۔ ساشا کو قتل کے الزام میں اسی کوڑوں اور عمر قید کی سزا ہوئی۔ سائبیریا کے برف زار میں قید کاٹتے ہوئے ساشا کو چھبیس سال ہو چکے تھے۔ ا س کی کمر جھک گئی تھی۔ سر اور لمبی داڑھی کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا۔ بالکل خاوش رہتا۔ اور اگر کبھی بات بھی کرتا تو نہایت دھیمی آواز میں۔

جتنا وقت ملتا عبادت میں صرف کر دیتا تھا۔ جیل کے حکام ساشا سے بہت خوش تھے۔ باقی قیدی بھی اس کی بہت عزت کرتے، اس کی مسلسل عبادت کی وجہ سے قیدیوں نے اسے سائیں بابا کہنا شروع کر دیا تھا۔ اگر انہیں جیل کے حکام تک کوئی بات پہنچانی ہوتی تو وہ ساشا کو اپنا نمائندہ مقرر کرتے۔ جب آپس میں کوئی جھگڑا ہو تا تو افسران سے شکایت کرنے کی بجائے وہ ساشا سے ثالثی کرواتے۔ ایک دن قیدیوں کا نیا گروہ جیل میں آیا۔ جب رات گئے قیدی نئے گروہ کی باتیں سن رہے تھے تو اچانک ساشا نے اپنے قصبے کا نام سنا۔

ایک نیاقیدی بتا رہا تھا کہ اسے قید کی سزا کیوں ہوئی۔ یہ قیدی مضبوط ڈیل ڈول کا تھا اورتقریبا ساٹھ کے پیٹھے میں تھا۔ ”مجھے گھوڑا چرانے پر پچاس کوڑوں اور بیس سال قید کی سزا ہوئی۔ “۔ یہ کہ کر نیا قیدی زور سے ہنسا۔ ”اگر ان بے وقوفوں نے مجھے جیل بھیجنا ہی تھا تو میرے اصل جرم کی سزا میں بھیجتے جس کا پولیس کو آج تک علم ہی نہیں ہوا“۔

” وہ کیا“ کئی قیدیوں نے بیک آواز سوال کیا۔
”وہ یہ کہ چھبیس سال پہلے میں نے ایک سوداگر کو قتل کیا تھا اور اس کے بیس ہزار روبل چرا لئے تھے۔ لیکن پولیس کو اصلی مجرم کاآج تک پتہ نہیں چلا“۔

یہ سن کر ساشا کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے نئے قیدی سے پوچھا کہ اس کا تعلق کس شہر سے ہے۔ قیدی نے جواب دیا کہ وہ ولاڈیمار کا رہنے والا ہے اور اس کا نام میکائل ہے۔
”میکائل یہ بتاؤ تم کسی ساشا نام کے سوداگر کو جانتے تھے جس کی ولاڈیمار میں دکانیں تھیں؟ “
”ساشا کے بیٹے رئیس سوداگر ہیں، لیکن ان کا باپ بہت عرصے سے غائب ہے۔ ان کی ماں کو بھی مرے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔

”خیر انہیں چھوڑو، بڑے میاں یہ بتاؤ کی تم یہاں کیوں قید ہو۔ تم نے کیا جرم کیا ہے؟ “
ساشا اپنے بارے میں بات نہییں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے آہستہ سے جواب دیا ”خدا کی مرضی یہی تھی۔ میں نے یقینا ایسے کام کیے ہوں گے جن کی سزا خدا مجھ کو دے رہا ہے“۔ میکائل نے بہت کریدنے کی کوشش کی لیکن ساشا بالکل خاموش ہو گیا تھا۔ دوسرے قیدیوں نے تھوڑی بہت کہانی دہرائی کہ کیسے ساشا کے سامان میں کسی نے خون آلود چاقو چھپا دیا تھا جس کی وجہ سے عدالت نے اسے ایک سوداگر کے قتل کے الزام میں مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور اس کو سائبیریا بھجوا دیا تھا جہاں وہ چھبیس سال سے قید بھگت رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2