الطافِ صحافت


”الطافِ صحافت“ کے لیے پہلا شکریہ تو مجھے ڈاکٹر طاہر مسعودصاحب کا ادا کرنا ہے۔ مگر ٹھہریے کتاب پر بات کرنے سے پہلے کچھ کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے ابھی تک میری براہ راست ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ٹیلی فونک رابطہ بھی بس دو تین کالوں تک ہی محدود رہاہے۔ مگر اِن کالوں یا ملاقاتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ دراصل میں اپنے طور پر سمجھتی ہوں کہ میرے اور ان کے درمیان ایک گہرا ناتہ اور واسطہ اُس درد کے حوالے سے ہے جو کبھی مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور جہاں کی وہ جم پل تھے اور جس کے فراق کا اظہار مجھے کہیں کہیں اردو ڈائجسٹ میں اُن کی تحریریں پڑھنے سے ملتا تھا۔ مشرقی پاکستان جو میری بھی محبت تھی اور جس کو جاننے اور سمجھنے کے لئے میں بھی وہاں گئی تھی۔

اب جب کتاب ملی۔ کھولا تو سب سے پہلے انہیں ہی پڑھاکہ وہ اِس عہد ساز صحافی بارے کیا لکھتے ہیں۔ ”بڑا انسان، بڑا صحافی“ کے عنوان سے انہوں نے راج شاہی میں اپنے بچپن کی اُن یادوں کا ذکر کیا تھاجب الطاف صاحب اُن کے ہاں مہمان ہوئے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ تو میرے ہی جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں کہ اِس مہندی رنگے گورے انگریز سے مجھے بھی کچھ ایسی ہی عقیدت تھی کہ ایک بار اولڈ پنجاب یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر ایسی ہی وضع قطع کے حلیے والے ایک شخص کے پیچھے بھاگی تھی کہ یہ الطاف حسن قریشی ہیں۔

کتاب کھلتی ہے۔ فہرست پر نظریں جم جاتی ہیں۔ یہاں صحافت اور ادب کے تابندہ ستاروں کی ایک کہکشاں جگمگا رہی ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت ترتیب کا حُسن متاثر کن ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی قد آور شخصیات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑی مرتب کرنے والے کی ذہانت اور محنت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔

اس میں ذرا بھر مبالغہ نہیں کہ پاکستانی صحافت میں اِس وقت صحافت کے افق پر جو نام چمک رہے ہیں انہوں نے ہی صحافت کو نئے رنگ و آہنگ سے سجانے کی اپنی سی کاوش کی ہے۔ یہ سب لوگ دبستان اردو ڈائجسٹ کے ہی تربیت یافتہ تھے۔ مجیب الرحمن شامی اور ضیا شاہد سے لے کر ہارون الرشید، رؤف طاہر، تنویر قیصر شاہد، عامر خاکوانی اور بے شمار دیگر نام کہ جنہوں نے ملک کے بڑے اخباروں میں نئے نئے رحجان ساز موضوعات کے ساتھ اخبارات کو مسابقاتی ڈور میں شامل کرنے کے اعزاز اپنے نام کئیے۔ جنگ میں اس نوع کی رحجان سازی ضیا شاہد کے کھاتے میں بھی جاتی ہے۔

اب یہاں داد نہ دوں طاہر مسعود کو کہ کیسے اِن ترقی پسندوں، آزاد منشن لوگوں کو کھینچ کر اِس محفل میں لے آئے ہیں۔ اردو ادب کا ایک بڑا نام ذکاء الرحمن الطاف صاحب کے حقیقی بھانجے ہیں۔ میرے لیے حیران کن تھا۔

یاد آتا ہے دھنک جیسا خوبصورت پرچہ نکالنے والے سرور سکھیرا کے ہاں ایک عشائیے پر ممتاز ادیب ذکاء الرحمن نے مجھے دیکھتے ہوئے سالوں پہلے کہا تھا۔ کبھی کبھی پڑھتا رہا ہوں میں تمہیں۔ اب آکر کچھ میچور ہورہی ہو۔ ذکاء الرحمن لیے دیے والے ادیب تھے۔ بڑا نام تھا ادب میں ان کا۔ میرے لیے تو اِن کے یہ الفاظ ہی بڑے حوصلہ افزا تھے کہ میں کچے پکے سے نکل کر اب ذرا بلوغت میں داخل ہورہی ہوں۔ اب یہ حیران کن بات ہی ہے نا کہ وہ الطاف حسن قریشی کے سگے بھانجے ہیں اور مضمون بھی کِس کمال کا ہے۔ ”مترنم آواز۔ “

صحافت اور ادب سے وابستہ خانوادے کا ایک اور اہم شہسوار نظر پڑتا ہے۔ مولانا حامد علی خان کِس خوبصورتی سے وہ الطاف حسن قریشی کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کی کامیابی کے اسباب بتاتے ہیں۔ تجزیہ کرتے ہیں۔

جاوید ہاشمی مدافعاتی سیاست کا بڑا نام، طلبہ تنظیم کا ایک ہردل عزیز رہنما، برملا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں میں اردو ڈائجسٹ کی پیداوار ہوں۔

عطا الحق قاسمی صاحب میرے سامنے ہیں۔ ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک ممتاز نام۔ وہ خود ایک مستند قہقہ بار شخصیت ہیں۔ انہوں نے الطا ف حسن قریشی کو اِسی عنوان سے پذیرائی دیتے اُن کی صحافیانہ خدمات کو سراہا ہے۔

جبار مرزا صاحب کا اپنا رنگ ہے۔ بلوچستان کی بڑی اہم ادبی شخصیت آغا گل کو پڑھئیے۔ اردو ڈائجسٹ سے اُن کا بچپن جڑا ہوا ہے، یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ الطاف حسن قریشی کے ملک کی سرکردہ شخصیات کے تہلکہ خیز انٹرویو جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے عہد کے بہت نامور صحافی محمد اظہار الحق، عبداللہ طارق سہیل، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے جس طرح اور جس جس انداز میں اپنے احساسات کو شیئر کیا ہے وہ بہت دلچسپ اور پرلُطف ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ یہ تحفہ اس کے بچپن کی یادوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اظہار صاحب اس محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ملکی و غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھا۔ کتابوں کے انبار میں گم رہامگر اردو ڈائجسٹ سے وابستگی زمانے گزر جانے کے بعد آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ کتنی خوبصورت اور سچی بات جو ہم سب کے دلوں کی ترجمان ہے۔

مجیب الرحمن شامی صاحب انہیں پاکستانی صحافت کے داتا گنج بخش کہتے ہیں۔ گنج بخش خزانہ دینے والا۔ یعنی صحافیانہ تربیت کا جوہر دینے والا۔ دیکھیے وہ لکھتے ہیں۔ وہ سیاست دان ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو کی بے تابیوں کو سید مودودی کا سوز مل جاتا۔ ناول نگار ہوتے تو نسیم حجازی اور قرۃ العین حیدر کو یک جان کرنا پڑتا۔ شاعر ہوتے تو اقبالؔ کی آرزوئیں داغؔ کے لہجے میں ڈھل جاتیں۔ صنعت کار ہوتے تو میرا خیال ہے کہ اتفاق فاؤنڈری کے سریے سے مضبوط سریا بنا کر دکھا دیتے۔ انھوں نے صحافت کو چن لیا، یا یوں کہیے کہ صحافت نے اِن کو چن لیا۔ اِس میدان میں قدم رکھا تو سونے کے زیور بناتے تھے، بڑھتے بڑھتے لوہے کے گرز ڈھالنے لگے۔ اُردو ڈائجسٹ کی ایجاد سے انھوں نے ادب کو عام آدمی تک پہنچایا، حقائق کہانی کے انداز میں سنائے اور گھر گھر اپنا سکہ جمایا۔

مشتاق احمد یوسفی کیسے خراج پیش کرتے ہیں۔ ہم ادیبوں کے اندرجو سہما سہما مصلحت اندیش شخص بیٹھا تھا، اِسے سب سے پہلے جس جیالے نے جرأت اظہار بخشی، وہ خود ادیب نہ تھا، ادبی سچائیوں کا سرچشمہ تھا۔ ہماری ساری نگارشیں، ہمارا سارا ناموسِ فن الطاف صاحب پر نثار! وہ رستم کیانی تھا کہ جس کی خاک پا آج بھی سرمہء چشمِ دانش وراں ہے۔ اِس جریدے کے اوراق بھی اِسی جنون کی حکایت کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ ضمیر جعفری ہوں، وسعت اللہ خان ہوں یا ہماری نامور ادیبہ الطاف آپا ہوں۔ جن کے افسانے ہمیشہ اردو ڈائجسٹ کی زینت بنتے تھے۔ الطاف حسن قریشی کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کوئی شمارہ الطاف آپا کے افسانے کے بغیر نہ ہو۔ الطاف فاطمہ کے بہترین افسانے قارئین نے اردو ڈائجسٹ سے ہی پڑھے۔ کچھ ایسا ہی حال بیگم اختر ریاض الدین کے ساتھ تھا۔ ”دھنک پر قدم“ اور ”سات سمندر پار“ جیسے سفرنامے ہم نے اسی پرچے کی وساطت سے پڑھے۔ گو ادبی دنیا کے مولانا صلاح الدین کو بھی یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے اردو ادب کے قارئین کو ایسی منفرد تحریر کی حامل خاتون سے ملوایا۔

ایس ایم ظفر ہوں، بشری رحمن، کرامت بخاری، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر انورسدید، ڈاکٹر فاطمہ حسن یا پھر قیوم نظامی ہوں۔ اردو ڈائجسٹ اور مدیرپرچہ کے لیے کِس محبت سے رطلب السان ہیں۔ کرنل محمد خان کی شہرہ آفاق کتاب بجنگ آمد کو پڑھانے اور چھاپنے کا سہرا بھی تو اسی ادارے کو جاتا ہے۔

تو اب ڈاکٹر طاہر مسعود کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے صحافت کی دنیا کے ایک سچے اور سُچے کردار کو مختلف طبقہ ہائے فکر کی سوچوں کے آئینوں میں محفوظ کیا۔ مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک صحافیانہ اثاثہ محفوظ کیا۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کا شکریہ کہ کتاب کو بہت عمدگی سے خوبصورت کاغذ پر چھاپا۔ پانچ سو سے زائد صفحات کی اس کتاب کی قیمت ہزار روپے میرے حساب سے زیادہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).