افغان صدر کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی: ’پاکستان افغان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے‘


عمرداودزئی کے مطابق امریکہ نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔

عمرداودزئی کے مطابق امریکہ نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔

اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر وہ حال کے پاکستان کو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستانی رویہ بدل چکا ہے۔

’میں ماضی میں نہیں جانا چاہتا، لیکن حال میں بہت سارے ایسے شواہد ہیں کہ پاکستان افغان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔‘

امن اور سلامتی کے علاقائی اُمور کے لیے افغان صدر کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، اور ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ ایشوز پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

’بہت عرصے بعد ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں امن اور مذاکرات کے لیے ایک پیج پر ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑیں اور چوکیاں

انڈیا افغانستان پر اربوں روپے کیوں لگا رہا ہے؟

طالبان کے مسلسل حملوں سے امن مذاکرات رک جائیں گے؟

افغان طالبان کے بعض ذرائع کے مطابق دوحہ میں منگل کو امریکہ کے ساتھ دو روزہ اجلاس کو متفقہ طور پر ملتوی کردیا گیا، لیکن پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان صدر کے ایلچی کا کہنا تھا کہ منگل کو دوحہ میں کوئی اجلاس ہونا ہی نہیں تھا۔

’دوحہ میں آج کے اجلاس کے بارے میں نہ ہمیں پتا تھا اور نہ ہی امریکہ کو پتا تھا۔ طالبان نے خود میڈیا کو بتایا تھا کہ آج کوئی اجلاس ہے۔‘

عمر داودزئی کے مطابق امریکہ نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔

بعض میڈیا رپورٹس میں یہ کہا گیا تھا کہ دوحہ میں امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کی پہلی ملاقات میں افغان حکومت کو نہ پہلے اور نہ ہی بعد میں آگاہ کیا گیا تھا۔

تاہم عمر داودزئی نے ان رپورٹس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے امریکہ نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں سے بھی مشورہ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کیے جائیں یا نہیں۔

’امریکہ نے تو یہ کوششیں شروع کرنے سے پہلے ہی افغان حکومت سے اجازت لی تھی کہ کیا اب وقت ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے جائیں۔‘

عمر داودزئی کے مطابق افغان سیاستدانوں نے امریکہ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا تھا۔

اس سوال کے جواب میں کہ طالبان افغان حکومت سے کیوں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، عمر داودزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی ایک عرصے سے یہ خواہش تھی کہ پہلے امریکہ سے بات چیت کرلیں اور بعد میں افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے۔ اُن کے مطابق ابھی تک جب امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی حتمی بات نہیں ہوئی ہے، اس لیے طالبان افغان حکومت سے ملنے سے انکار کر رہے ہیں۔

تاہم افغان صدر کے خصوصی ایلچی نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے اور بات چیت بھی کریں گے۔

عمر داودزئی نے منگل کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات بھی کی تھی اور ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp